Sunday, 30 April 2023

ساز خاموش میں آواز کہاں سے لاؤں

 سازِ خاموش میں آواز کہاں سے لاؤں 


میرے ان کاکلِ برہم کی حکایت مت پوچھ 

آہ اس نالۂ پیہم کی حقیقت مت پوچھ 

دیکھ لے چشمِ بصیرت سے زمانے کا نظام 

مجھ سے اے دوست مِرے غم کی صداقت مت پوچھ 

لب رنگیں کا وہ اعجاز کہاں سے لاؤں 

ساز خاموش میں آواز کہاں سے لاؤں 


داستان دل برباد سناؤں کیسے 

مجھ پہ گزری ہے جو افتاد سناؤں کیسے 

آتشِ غم سے سلگتا ہے کلیجہ میرا 

دلِ ناشاد کی فریاد سناؤں کیسے 

ہائے اب طاقت گفتار کہاں سے لاؤں 

نغمۂ غم کا خریدار کہاں سے لاؤں 


جام و مِینا میں بہکتے ہوئے ایمان کو دیکھ 

بھوک و افلاس سے مرتے ہوئے انسان کو دیکھ 

ہر طرف شور ہے فریاد ہے بربادی ہے 

روئے گردوں پہ مچلتے ہوئے طوفاں کو دیکھ 

اب بتا چشمِ فسوں کار کہاں سے لاؤں 

مست و بے خود سی وہ رفتار کہاں سے لاؤں 


پر تجھے عشق و محبت سے کہاں فرصت ہے 

مئے گلرنگ کی لعنت سے کہاں فرصت ہے 

آہ مظلوم نگاہوں کا فسانہ سن لے 

ہوس و حرص کی دولت سے کہاں فرصت ہے 

دلِ بے تاب میں پھر تاب کہاں سے لاؤں 

اپنی آنکھوں میں مئے ناب کہاں سے لاؤں 


اپنے گلشن کی تباہی کا گِلہ کس سے کروں 

شامِ غربت کی سیاہی کا گِلہ کس سے کروں 

ہولیاں خون کی کھیلی گئیں انسانوں میں 

اپنی نا کردہ گناہی کا گِلہ کس سے کروں 

اپنی نیندوں میں تِرے خواب کہاں سے لاؤں 

فرصتِ خاطرِ احباب کہاں سے لاؤں 


عفت زیبا کاکوروی

No comments:

Post a Comment