بہارو جُھوٹ مت بولو
کسی جبل بلند قامت کی رفعت سے ذرا اونچی
ہوائے یاسمن کے عطر سے ملبوس کو چُھوتی
ستاروں سے کہیں اجمل
ستم ایجاد چشم ناز کا ہیبت تماشا
ہاتھ پر دھر کر
یہ کیسی رُت زمیں پر آن اتری ہے
یہ کیسی رُت کہ جس کو دیکھ کر
اس بار دھرتی پر
زمیں والوں کا واویلہ
فلک کے سجدہ تعظیم کی، سُرخاب پٹی پر
ملائک سے اُلجھنے آیا
حیا داروں کی بستی میں
دوپٹے تتلیوں کے
پاؤں میں بیلوں کے کھنچ آئے
زمیں والوں نے منظر دیکھ کر
پُر خوف جسموں کو
یکایک بال و پر کی اوٹ میں تحلیل کر ڈالا
سو وہ نا پید ہوتے جا رہے تھے
اور کسی مخبر کی دست و بُرد سے محفوظ ہوتے جا رہے تھے
کُشادہ صحن کی چھوٹی پنیری
ہوا کی چال سے ہم رقص ہوتی
مشامِ جان کے پیروں میں گُھنگرو باندھتی پھرتی کہانی
کسی شاخِ بُریدہ پر
کہیں سے مانگ کر لائی جوانی
فقط اک خواب ہوتی جا رہی ہے
کہیں ہاتھی کی میّت کو
کسی چیونٹی میں دفنانا
کہیں مرقد کے آنگن میں
اُچھل کر پھر عیاں ہونا
کہانی حیرتیں کہتی
کہانی کیا نہیں کہتی؟
وہیں بازارِ حِصص کے نفع بازوں کی جیبوں میں
پرائے مال کی لذّت بہک کر رقص کرتی ہے
محبت باز مجنوں کو
کہیں سیڑھی سے پھینکا جا چکا ہے
حِصص کے دام میں تازہ ہوس کی مانگ بڑھتی ہے
یہ کیسی رُت کہ جس کو جاں فزا کہنا ملامت ہے
سیہ قسمت کی بوڑھی اپسرا کو
کسی اُمید سے سرشار کر کے تم
خدارا کفر مت تولو
بہارو، جھوٹ مت بولو
فرخندہ شمیم
No comments:
Post a Comment