والصبح اذا تنفس
خاکسترِ پروانہ سرِ بزم اُڑا کر
گزری ہے صبا شمع کے شعلے کو بُجھا کر
معمور فضا ہو گئی آوازِ اذاں سے
پیمانہ سنبھالا نہ گیا پیرِ مُغاں سے
اِک چادرِ رنگیں سے شفق سایہ فگن ہے
یہ رات کی میّت کے لیے سُرخ کفن ہے
برخاست ستاروں کی ہوئی بزمِ شبینہ
اُبھرا ہے اُفق پار سے سُورج کا سفینہ
پُھوٹے ہیں عجب شان سے کرنوں کے فوارے
وہ دیکھیے روشن ہوئے مسجد کے منارے
ہر گوشۂ فطرت میں ہے تنویر ہی تنویر
ہر قطرۂ شبنم میں ہے خورشید کی تصویر
کیا حُسن ہے دلکش رُخِ زیبائے سحر میں
نظارے سمٹ آئے ہیں آغوشِ نظر میں
دیوانے چلے شہر سے اور دشت کو نکلے
کچھ نسترن اندام بھی گُلگشت کو نکلے
انگڑائیاں لیتے ہوئے پہنچے ہیں چمن میں
جُھرمٹ ہے نگاروں کا بہاروں کے وطن میں
پتوں سے ہوا گزری ہے کیا ساز بجا کے
جیسے کسی رقاصہ کی پائل کے چھناکے
پھولے ہوئے رخسار ہیں ننھی سی کلی کے
نرگس کی حسیں آنکھ میں آنسو ہیں خوشی کے
ہر شاخ کی رنگین کلائی میں لچک ہے
پھولوں میں بھی پیراہنِ یوسف کی مہک ہے
اڑتے ہیں قطاروں میں شکر بیز پرندے
خو ش رنگ، سحر خیز، نوا ریز پرندے
غُنچوں کی جبیں فرطِ مسرت سے کِھلی ہے
بُلبل کو ترنم کی بڑی داد ملی ہے
اک طائرِ ناشاد تڑپتا ہے قفس میں
ہے سیر کا ہنگام رہائی نہیں بس میں
اس قید سے یارانِ چمن چُھوٹ گئے ہیں
اور کوششِ ناکام سے پر ٹُوٹ گئے ہیں
اُمید کے دھوکے سے وہ مجبورِ فُغاں ہے
صیّاد کو فریاد کا احساس کہاں ہے
آتی ہیں نظر دور سے کھیتوں کی فضائیں
پُر کیف ہیں فطرت کی حسینہ کی ادائیں
سرسوں ہے کہ یا کھیت میں آ بیٹھی ہیں پریاں
لچکیلے بدن اور بسنتی ہے چُنریاں
کیا رُوپ ہے دیہات کے اک سادہ جواں پر
اور ہیر کے کچھ بول ہیں بانکے کی زباں پر
روزی کے تفکّر میں بہت دور چلا ہے
تیشے کو سنبھالے ہوئے مزدور چلا ہے
شاعر کے بھی اس وقت ہیں نکھرے ہوئے جذبات
خُورشید کی مانند اُبھرتے ہیں خیالات
انور مسعود
No comments:
Post a Comment