بعد تیرے دوستا کوئی نہیں
زندگی سے واسطہ کوئی نہیں
میں یہاں سے کب کا اٹھ کے جا چکا
اب یہاں میرے سوا کوئی نہیں
کال پر پوچھا جب اس نے کون ہو
میں نے جھٹ سے کہہ دیا کوئی نہیں
وہ چراغِ دل جلاتے جائیں گے
جن کے ہاتھوں میں دیا کوئی نہیں
اس جہانِ خواب کی تعبیر میں
کون ہے کیوں ہے پتہ کوئی نہیں
اپنے اندر آ گیا ہوں اور اب
واپسی کا راستہ کوئی نہیں
زندگی بھر سانس لینے کا عذاب
اور جینے کی سزا کوئی نہیں
احمد اویس
No comments:
Post a Comment