اسی صدمے سے مر جانا ہے میں نے
تجھے مُشکل سے پہچانا ہے میں نے
اکیلا ہوں یہاں میں آنکھوں والا
کئی اندھوں سے ٹکرانا ہے میں نے
بُڑھاپے میں کروں گا عشق جا کر
بُجھے شُعلوں کو دہکانا ہے میں نے
میں جتنا بے سر و ساماں چلا ہوں
بہت کچھ ساتھ لے آنا ہے میں نے
ذہانت بھی نہیں اس پر جتانی
پہیلی کو بھی سُلجھانا ہے میں نے
کنواں کُھدوایا جانا تھا وہاں پر
جہاں مینار بنوانا ہے میں نے
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment