اب دل متحمل نہیں اس بارِ الم کا
ہر منظرِ زیبا پہ جو سایہ ہے ستم کا
اب جنتِ کشمیر میں بارود کی بُو ہے
شبنم کی جگہ پھول کے مکھڑے پہ لہو ہے
زخموں کی طرح دکھتے ہیں غنچوں کے دہن بھی
خنجر میں پرو دیتے ہیں کلیوں کے بدن بھی
دنیا کو سکھاتے ہیں جو آدابِ عدالت
دنیا کے جو بن بیٹھے ہیں اربابِ عدالت
سہما ہوا پھرتا ہے عدو برقِ تپاں سے
اب لرزہ بر اندام ہے آوازِ اذاں سے
چھٹ جائے گی یہ ظلمتِ شب قوتِ حق سے
پھوٹے گی سحر خونِ شہیداں کی شفق سے
انور مسعود
No comments:
Post a Comment