Monday 17 December 2012

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اُجڑی گلیاں
آؤ ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے
سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلّور سے پاؤں والے

بھری بہار میں اب کے عجیب پھول کھلے

بھری بہار میں اب کے عجیب پھول کھلے
نہ اپنے زخم ہی مہکے، نہ دل کے چاک سلے
کہاں تلک کوئی ڈھونڈے مسافروں کا سراغ
بچھڑنے والوں کا کیا ہے، ملے ملے نہ ملے
عجیب قحط کا موسم تھا اب کے بستی میں
کیے ہیں بانجھ زمینوں سے بارشوں نے گِلے

چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ

چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ
میں بھی اُڑتا رہا اک لمحہ بے خواب کے ساتھ
کس میں ہمت ہے کہ بدنام ہو سائے کی طرح
کون آوارہ پھرے جاگتے مہتاب کے ساتھ
آج کچھ زخم، نیا لہجہ بدل کر آئے
آج کچھ لوگ نئے مل گئے احباب کے ساتھ

وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے

وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے
بچھڑ نہ جائے کہیں پھر اداس کر کے مجھے
جہاں نہ تو نہ تیری یاد کے قدم ہوں گے
ڈرا رہے ہیں وہی مرحلے سفر کے مجھے
ہوائے دشت مجھے اب تو اجنبی نہ سمجھ
کہ اب تو بھول گئے راستے بھی گھر کے مجھے

کوئی نئی چوٹ پھر سے کھاؤ اداس لوگو

کوئی نئی چوٹ پھر سے کھاؤ اداس لوگو 
کہا تھا کس نے کہ مسکراؤ اداس لوگو
گزر رہی ہیں گلی سے پھر ماتمی ہوائیں
کواڑ کھولو ، دئیے بجھاؤ ، اداس لوگو
جو رات مقتل میں بال کھولے اتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ اداس لوگو

کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر

کس نے سنگِ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اک سکوتِ مرگ طاری ہے در و دیوار پر
تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأتِ اظہار پر
شاخِ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا، شگوفہ بھی، شرر بھی
اُترا نہ گریباں میں مقدّر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دِگر بھی

تن پہ اوڑھے ہوئے صدیوں کا دھواں شام فراق

تن پہ اوڑھے ہوئے صدیوں کا دھواں شامِ فراق
دل میں اتری ہے عجب سوختہ جاں، شامِ فراق
خواب کی راکھ سمیٹے گی، بکھر جائے گی
صورتِ شعلۂ خورشید رُخاں شامِ فراق
باعثِ رونقِ اربابِ جنوں ویرانی
حاصلِ وحشتِ آشفتہ سراں شامِ فراق

اب اے میرے احساس جنوں کیا مجھے دینا

اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تُم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گِرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مُرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو 
اس شاخ سے ٹوٹا ہو لمحہ مجھے دینا

Friday 14 December 2012

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے، مرے نام آتے ہیں
تابِ نظارہ کسے دیکھے جو ان کے جلوے
بجلیاں کوندتی ہیں، جب لبِ بام آتے ہیں 
تو سہی حشر میں تجھ سے جو نہ یہ کہوا دوں
دوست وہ ہوتے ہیں جو وقت پہ کام آتے ہیں

کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں

کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں، تو داغؔ نام نہیں
وفورِ یاس نے یاں کام ہے تمام کیا
زبانِ یار سے نکلی تھی نا تمام نہیں 
وہ کاش وصل کے انکار پر ہی قائم ہوں
مگر انہیں تو کسی بات پر قیام نہیں 

یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں

یہ کیا کہا، کہ داغ کو پہچانتے نہیں؟
وہ ایک ہی تو شخص ہے، تم جانتے نہیں
بدعہدیوں کو آپ کی کیا جانتے نہیں
کل مان جائیں گے اسے ہم جانتے نہیں
وعدہ ابھی کیا تھا، ابھی کھائی تھی قسم
کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے، نیاز کیا جانیں
شمع رُو آپ گو ہوئے، لیکن
لطفِ سوز و گداز کیا جانیں
کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب، نماز کیا جانیں

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

غضب کِیا تِرے وعدے پہ اعتبار کِیا
تمام رات قیامت کا انتظار کِیا
کسی طرح جو نہ اُس بت نے اعتبار کِیا
مِری وفا نے مجھے خوب شرمسار کِیا
ہنسا ہنسا کے شبِ وصل اشک بار کِیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کِیا

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے 
با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے 
بار بار اُٹھنا اسی جانب نگاہِ شوق کا 
اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

وصل ہو جائے يہيں حشر ميں کيا رکھا ہے

وصل ہو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کی بات کو، کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تُو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے
کہتے ہيں آئے جوانی تو يہ چوری نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہمنفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد! پتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمّہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں، یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی نہیں، پایاب ہیں ہم

بدن میں جب تک کہ دل ہے سالم تری محبت نہاں رہے گی

بدن میں جب تک کہ دل ہے سالم، تری محبت نہاں رہے گی
یہی تو مرکز ہے، یہ نہ ہو گا، تو پھر محبت کہاں رہے گی
بہت سے تنکے چنے تھے میں نے، نہ مجھ سے صیّاد تُو خفا ہو
قفس میں گر مر بھی جاؤں گا میں،، نظر سوئے آشیاں رہے گی
ابھی سے ویرانہ پن عیاں ہے، ابھی سے وحشت برس رہی ہے
ابھی تو سنتا ہوں کچھ دنوں تک بہار اے آشیاں رہے گی

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

دائم پڑا ہُوا تِرے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یارب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہُوں میں

کیوں میں تسکین دل اے یار کروں یا نہ کروں

کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟ 
سُن لے اک بات مری تُو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستمگار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ مرے بالِیں سے کہ دَم رکتا ہے
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں؟

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہونگے کئی بے جاں ہونگے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہونگے
فلسِ ماہی کے گل شمع شبستاں ہونگے
تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں 
اور بن جائینگے تصویر جو حیراں ہونگے

ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں

ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں
اے خوشا مست کہ تابوت کے آگے جس کے
آب پاشی کے بدل مئے کو چھڑکتے جاویں
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے تِرے
ہم کہاں تک تِرے پہلو سے سرکتے جاویں

مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند

 مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند

مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کے مانند

دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے

سیلاب سے برباد،۔ مکانات کے مانند

میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں

اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کے مانند

اس ڈھب سے کیا کیجے ملاقات کہیں اور

اِس ڈھب سے کِیا کیجے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور
کیا بات کوئی اس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اِشارات کہیں اور
اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو
رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور

کتنی بے ساختہ خطا ہوں میں

کتنی بے ساختہ خطا ہوں میں
آپ کی رغبت و رضا ہوں میں
میں نے جب ساز چھیڑنا چاہا
خامشی چیخ اٹھی، صدا ہوں میں
حشر کی صبح تک تو جاگوں گا
رات کا آخری دِیا🪔 ہوں میں

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو 
یہ بھی کافی نہیں، ‌ظالم کی پشیمانی کو 
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌، جو ہم نے 
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو 
شیشۂ شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گِرا
عکسِ گُلرنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو 

شغل بہتر ہے عشق بازی کا

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر، اُس زلف کی درازی کا
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا

ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی

ہے ایک ہی جلوہ جو اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
آئینہ بھی حیران ہے، اور آئینہ نگر بھی
ہو نُور پہ کچھ اور ہی اِک نُور کا عالم
اس رخ پہ جو چھا جائے مرا کیفِ نظر بھی
تھا حاصلِ نظارہ، فقط ایک تحیّر
جلوے کو کہے کون کہ اب گُم ہے نظر بھی

دل ٹھہرنے دے تو آنکھيں بھی جھپکتے جاويں

دِل ٹھہرنے دے تو آنکھيں بھی جھپکتے جاويں
ہم، کہ تصوير بنے بس تُجھے تکتے جاويں
چوبِ غم خوردہ کی مانِند سُلگتے رہے ہم
نہ تو بُجھ پائيں، نہ بھڑکيں، نہ دہکتے جاویں
تيری بستی ميں، تيرا نام پتہ کيا پُوچھ لیا
لوگ حيران و پريشاں ہميں تکتے جاويں

اے خدا آج اسے سب کا مقدر کر دے

اے خدا! آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے
سانحے وہ تھے کہ پتھرا گئیں آنکھیں میری
زخم یہ ہیں تو مِرے دل کو بھی پتھّر کر دے
صرف آنسو ہی اگر دستِ کرم دیتا ہے
میری اُجڑی ہوئی آنکھوں کو سمندر کر دے

اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی، جو یکجا گزری
آ، گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دُشمن
اک مری بات نہیں، تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مِرے ہمنفسوں پر لبِ دریا گزری

Thursday 13 December 2012

حامی بھی نہ تھے منکر غالب بھی نہیں تھے

حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
اس بار بھی دُنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
بیچ آئے سرِ قریۂ زر، جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے

کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں

کھوئے ہوئے اِک موسم کی یاد میں

سمائے میری آنکھوں میں خواب جیسے دن
وہ مہتاب سی راتیں، گلاب جیسے دن
وہ گنجِ شہرِ وفا میں سحاب جیسے دن
وہ دن کہ جن کا تصّور متاعِ قریہ دل
وہ دن کہ جن کی تجلّی فروغ ہر محفل
گئے وہ دن تو آندھیروں میں کھو گئی منزل

ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھیے کیا ہو

ہے تاک میں دُزدیدہ نظر، دیکھئے کیا ہو
پھر دیکھ لیا اس نے ادھر، دیکھئے کیا ہو 
دل جب سے لگایا ہے، کہیں جی نہیں لگتا
کس طرح سے ہوتی ہے بسر، دیکھئے کیا ہو
جو کہنے کی باتیں ہیں وہ سب میں نے کہی ہیں
ان کو مِرے کہنے کا اثر، دیکھئے کیا ہو

نہ آیا نامہ بر اب تک گیا تھا کہہ کے اب آیا

نہ آیا نامہ بر اب تک، گیا تھا کہہ کے اب آیا
الٰہی کیا ستم ٹُوٹا، خدایا کیا غضب آیا
رہا مقتل میں بھی محروم، آب تیغِ قاتل سے
یہ ناکامی کہ میں دریا پہ جا کر، تشنہ لب آیا
غضب ہے جن پہ دل آئے، کہیں انجان بن کر وہ
کہاں آیا، کدھر آیا، یہ کیوں آیا، یہ کب آیا؟ 

ملے کیا کوئی اس پردہ نشیں سے

ملے کیا کوئی اُس پردہ نشیں سے
چھپائے منہ جو صورت آفریں سے
مِرے لاشے پر اُس نے مُسکرا کر
ملیں آنکھیں عدو کی آستیں سے 
اثر تک دسترس کیوں کر ہو یارب
دعا نے ہاتھ باندھے ہیں یہیں سے

دل چرا کر نظر چرائی ہے

دل چُرا کر، نظر چُرائی ہے
لُٹ گئے، لُٹ گئے، دُہائی ہے
ایک دن مل کے پھر نہیں ملتے
کس قیامت کی یہ جدائی ہے
میں یہاں ہوں وہاں ہے دل میرا
نارسائی، عجب رسائی ہے 

تا بہ مقدور انتظار کیا

تا بہ مقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفاکار تجھ سا یار کیا
یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھیے کیا ہے کیا نہیں

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھئے کیا ہے، کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
بُوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دلکش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھئے تو وفا نہیں
شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بُتاں
مجھ کو خدانخواستہ، تم سے تو کچھ گِلا نہیں

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا
شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا
سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی، تو نہ پائیے گا

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پُرخُوں کی اِک گلابی سے
جی ڈہا جائے ہے سحر سے، آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

نظروں میں اس نے مجھ سے اشارات آج کی

نظروں میں اس نے مجھ سے اِشارات آج کی
کیا تھا یہ خواب کچھ نہ کھلی بات آج کی
میں نے تو بھر نظر تجھے دیکھا نہیں ابھی
رکھیو حساب میں نہ ملاقات آج کی
اک بات تلخ کہہ کے کیا زہر عشق سب
تُو نے ہماری خوب مدارات آج کی

آج دل بے قرار ہے کیا ہے

آج دل بے قرار ہے، کیا ہے
درد ہے، انتظار ہے، کیا ہے
جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے، کیا ہے
یہ جو کھٹکے ہے دل میں کانٹا سا
مژہ ہے، نوکِ خار ہے، کیا ہے

شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ

شیفتہؔ! ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ
اے ستمگر! رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دَم نکل جائے گا سینے سے مِرے تیر نہ کھینچ
حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ

پابندئ وحشت میں زنجیر کے مشتاق

پابندئ وحشت میں زنجیر کے مشتاق
دیوانے ہیں اس زلفِ گِرہ گیر کے مشتاق
بے رحم نہیں جرمِ وفا قابلِ بخشش
محروم ہیں کس واسطے تعزیر کے مشتاق
رہتے تھے بہم جن سے مثالِ ورق و حرف
اب ان کی رہا کرتے ہیں تحریر کے مشتاق

شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

شب تُم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چُرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے، کہ اغیار پا گئے
پوچھا کسی پہ مرتے ہو، اور دَم نکل گیا
ہم جان سے عناں بہ عنانِ صدا گئے
پھیلی وہ بُو جو ہم میں نہاں مثلِ غنچہ تھی
جھونکے نسیم کے یہ نیا گُل کھلا گئے

کس سے بیان کیجیے حال دل تباہ کا

کس سے بیان کیجیے، حال دلِ تباہ کا
سمجھے وہی اسے جو ہو، زخمی تِری نگاہ کا
مجھ کو تِری طلب ہے یار، تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میں‌ یاں نہیں، طَور کوئی نباہ کا
دِین، دل و قرار، صبر، عشق میں‌تیرے کھو چکے
جیتے جو اب کے ہم بچے نام نہ لیں‌ گے چاہ کا

ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست

ہندو ہیں بُت پرست، مسلماں خُدا پرست
پُوجوں میں اُس کسی کو جو ہو آشنا پرست
اس دور میں گئی ہے مروّت کی آنکھ پھُوٹ
معدوم ہے جہان سے چشمِ حیا پرست
دیکھا ہے جب سے رنگِ گفک تیرے پاؤں میں
آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست

بہہ چلا چشم سے یکبار جو اک دریا سا

بہہ چلا چشم سے یک بار جو اِک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا
حرفِ مطلب کو مرے سُن کے بصد ناز کہا
"ہم سمجھتے نہیں، بکتا ہے تُو سودائی کیا"
شیخ جی! ہم تو ہیں ناداں، پر اُسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا

مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا

مدرسہ، یا دَیر تھا، یا کعبہ، یا بُت خانہ تھا
ہم سبھی مہماں تھے یاں، اِک تُو ہی صاحبِ خانہ تھا 
وائے نادانی، کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
حیف! کہتے ہیں ہُوا گُلزار، تاراجِ خزاں
آشنا اپنا بھی واں اِک سبزۂ بے گانہ تھا 

خیال شب غم سے گھبرا رہے ہیں

خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلے میں
جنازہ لیے دل کا ہم جارہے ہیں

اسیر جسم ہوں معیاد قید لا معلوم

اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
ہے اصل میں مری مٹی کہاں کی کیا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستہ معلوم

ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غمگسار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ ناخوشگوار تھا، نہ رہا

Monday 10 December 2012

خوابیدگی درد کی محرم تو نہیں ہے

خوابیدگی، درد کی محرم تو نہیں ہے
یہ شب ہے، ترا کاکُلِ پُرخم تو نہیں ہے
اِک ابر کی ٹھنڈک میں اسے بھول ہی جائیں
یادوں کی تپش، اتنی بھی مدھم تو نہیں ہے
اس عہد میں وابستگئ موسمِ گُل بھی
اب حلقۂ زنجیر سے کچھ کم تو نہیں ہے

ہم کہ منزل کا تصور نہ نظر میں رکھتے

ہم کہ منزل کا تصوّر نہ نظر میں رکھتے
یہ تو ہوتا کہ تِرا ساتھ سفر میں رکھتے
ہم اسیرانِ جنوں اپنی رہائی کے لیے
عزم پرواز کہاں جنبش پر میں رکھتے
ابرِ گِریہ سے تھی خود چاندنی افسردہ جمال
عکسِ مہتاب کو کیا روزن و در میں رکھتے

اک انتخاب وہ یادوں کے ماہ و سال کا تھا

اِک انتخاب وہ یادوں کے ماہ و سال کا تھا
جو حرفِ ابر زدہ، آنکھ میں ملال کا تھا
شکست آئینۂ جاں پہ سنگ زن رہنا
ہُنر اُسی کا تھا، جتنا بھی تھا، کمال کا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ کھل کر بھی بادباں نہ کھلے
تو اس سے کتنا تعلّق ہوا کی چال کا تھا

اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی

اسے کیا خبر، کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی
اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی
کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئینہ، اسے کیا خبر
کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی
میں اسیرِ شامِ قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل
سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب، مِری نگاہ دھری رہی

کسی کی یاد سے ہم بے نیاز ہو جائیں

کسی کی یاد سے، ہم بے نیاز ہو جائیں
مگر یہ ڈر ہے کہیں رتجگے نہ سو جائیں
فضا اُداس، ستارے اُداس، رات اُداس
یہ زندگی ہے تو ہم بھی اُداس ہو جائیں
وہ سیلِ تند سے بچ کر نکل تو آئے ہیں
یہ خوف ہے نہ کنارے کہیں ڈبو جائیں

سیل گریہ ہے کوئی جو رگ جاں کھینچتا ہے

سیلِ گِریہ ہے کوئی، جو رگِ جاں کھینچتا ہے
رنگ چاہت کے وہ آنکھوں پہ کہاں کھینچتا ہے
دل، کہ ہر بار محبت سے لہو ہوتا ہے
دل کو ہر بار یہی کار زیاں کھینچتا ہے
شاید اب کے بھی مِری آنکھ میں تحریر ہے وہ
لمحۂ یاد، کوئی حرفِ گماں کھینچتا ہے

سقف سکوں نہیں تو کیا سر پہ یہ آسماں تو ہے

سقفِ سکوں نہیں تو کیا، سر پہ یہ آسماں تو ہے
سایۂ زلف اگر نہیں، دھوپ کا سائباں تو ہے
آنکھ کے طاق میں وہ ایک، جل اٹھا نجمِ نیم جاں
درد کی رات ہی سہی، کوئی سحر نشاں تو ہے
جاگ رہا ہوں رات سے لذتِ خواب کے لیے
نیند نہیں جو آنکھ میں جوئے شب رواں تو ہے

یہ حکم ہے کہ غم کشتگاں نہ رکھا جائے

یہ حکم ہے کہ غمِ کشتگاں نہ رکھا جائے
بچے ہوؤں کا بھی کوئی گماں نہ رکھا جائے
جو فیصلہ ہی ہمارے خلاف ہونا ہے
تو فیصلے میں ہمارا بیاں نہ رکھا جائے
ہمارے ہاتھ ستاروں پہ پڑنے لگتے ہیں
ہمیں اسیر شبِ درمیاں نہ رکھا جائے

کیا ضروری ہے وہ ہمرنگ نوا بھی ہو جائے

کیا ضروری ہے وہ ہمرنگِ نوا بھی ہو جائے
تم جدھر چاہو، اُدھر کو یہ ہوا بھی ہو جائے
اپنے پر نوچ رہا ہے، تِرا زندانئ دل
اسے ممکن ہے رہائی کی سزا بھی ہو جائے
دل کا دامانِ دریدہ نہیں سلِتا، تو میاں
بھاڑ میں جائے اگر چاک رِدا بھی ہو جائے

دامن چاک ہی اے ہم نفساں ایسا تھا

دامنِ چاک ہی اے ہم نفساں ایسا تھا
رات ایسی تھی کہاں، چاند کہاں ایسا تھا
ہم ہواؤں کو لیے پھرتے تھے زنجیر بکف
رات اس دشت کی وحشت پہ گماں ایسا تھا
دل کہاں بوجھ اُٹھاتا شب تنہائی کا
یہ تِرا قربِ جدائی مری جاں ایسا تھا

Sunday 9 December 2012

تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے

تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
خُدا مجھے یہ تحمّل، یہ حوصلہ بھی نہ دے
مِرے بیانِ صفائی کے درمیاں مت بول
سُنے بغیر مجھے، اپنا فیصلہ بھی نہ دے
یہ عمر میں نے تِرے نام بے طلب لکھ دی
بھلے سے دامنِ دل میں کہیں جگہ بھی نہ دے

چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے

چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدّر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبحدم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
کل ہی جن کو تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا
رات اسی طرح کے تارے مری چھت پر نکلے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے، آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اسکی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے

چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا

چاند ہی نکلا، نہ بادل ہی چھما چھم برسا 
رات دل پر غمِ دل، صورتِ شبنم برسا 
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح 
غنچے شاکی ہیں کہ یہ ابر بہت کم برسا
سرد جھونکوں نے کہی سُونی رُتوں سے کیا بات 
کِن تمناؤں کا خُوں شاخوں سے تھم تھم برسا

یونہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں

یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں
زندگی! ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں
اب زمیں پر کوئی گوتم، نہ محمؐد، نہ مسیحؑ
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں
وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سُنتا ہی نہیں، اُس کو پکارے جائیں

یہ دل کسی بھی طرح شام غم گزار تو دے

یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے
پھر اس کے بعد وہ عمروں کا انتظار تو دے
ہوائے موسمِ گُل جانفزا ہے اپنی جگہ
مگر، کوئی خبرِ یارِ خوش دیار تو دے
ہمیں بھی ضد ہے کہاں عمر بھر نبھانے کی
مگر، وہ ترکِ تعلق کا اختیار تو دے

یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی

یُوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خُود بھی
وہ مسافر کہ جو منزل تھے، بجائے خُود بھی
کتنے غم تھے کہ زمانے سے چھپا رکھتے تھے
اس طرح سے کہ ہمیں یاد نہ آئے خُود بھی
ایسا ظالم ہے کہ گر ذکر میں اُسکے کوئی ظلم
ہم سے رہ جائے، تو وہ یاد دلائے خُود بھی

روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں

روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں، ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اِک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں

عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے، مہتاب مت دیکھا کرو
جَستہ جَستہ پڑھ لیا کرنا، مضامینِ وفا
پر کتابِ عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو
اِس تماشے میں اُلٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈُوبنے والوں کو زیرِ آب مت دیکھا کرو

منزل دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے

منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟
جس سے پوچھو وہی کہتا ہے، یہاں سے آگے
اہلِ دل کرتے رہے، اہلِ ہَوس سے بحثیں
بات بڑھتی ہی نہیں سود و زیاں سے آگے
اب جو دیکھا تو کئی آبلہ پا بیٹھے ہیں
ہم کہ پیچھے تھے بہت ہمسفراں سے آگے

تجھے ہے مشق ستم کا ملال ویسے ہی

تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال، ویسے ہی
ہماری جان تھی، جاں پر وبال ویسے ہی
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
ہم آ گئے ہیں تہِ دام تو نصیب اپنا
وگرنہ اُس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی

Saturday 8 December 2012

پھرے گا تو بھی یونہی کوبکو ہماری طرح

پِھرے گا تُو بھی یُونہی کُوبکُو ہماری طرح
دریدہ دامن و آشفتہ مُو، ہماری طرح
کبھی تو سنگ سے پھُوٹے گی آبجُو غم کی
کبھی تو ٹُوٹ کے روئے گا تُو ہماری طرح
پلٹ کے تجھ کو بھی آنا ہے اس طرف، لیکن
لُٹا کے قافلۂ رنگ و بُو، ہماری طرح

گل بھی گلشن میں کہاں غنچہ دہن تم جیسے

گُل بھی گُلشن میں کہاں، غُنچہ دہن، تم جیسے
کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے
یہ میرا حُسنِ نظر ہے تو دِکھا دے کوئی
قامت و گیسُو و رُخسار و دہن، تم جیسے
اب تو قاصد سے بھی ہر بات جھجک کر کہنا
لے گئے ہو میرا بے ساختہ پن تم جیسے

سو صلیبیں تھیں ہر اک حرف جنوں سے پہلے

سو صلیبیں تھیں، ہر اِک حرفِ جنُوں سے پہلے
کیا کہوں اب میں "کہُوں یا نہ کہُوں" سے پہلے
اس کو فرصت ہی نہیں دوسرے لوگوں کی طرح
جس کو نسبت تھی مرے حالِ زبُوں سے پہلے
کوئی اِسم ایسا، کہ اُس شخص کا جادو اُترے
کوئی اعجاز، مگر اُس کے فسُوں سے پہلے

نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے

نبھاتا کون ہے قول و قسم، تم جانتے تھے
یہ قُربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے
رہا ہے کون، کس کے ساتھ انجامِ سفر تک
یہ آغازِ مسافت ہی سے ہم تم جانتے تھے
مزاجوں میں اُتر جاتی ہے تبدیلی مِری جاں
سو رہ سکتے تھے کیسے ہم بہم، تم جانتے تھے

بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا

بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا
اور یہ سانحہ، دیوار اُٹھانے سے ہوا
میری مٹّی تھی کہاں کی، تو کہاں لائی گئی
بے زمیں میں جو ہوا بھی تو ٹھکانے سے ہوا
کام جتنا تھا محبت کا، محبت نے کیا
جتنا ہونا تھا زمانے سے، زمانے سے ہوا

شہر میں جب غنچہ دہنی گل پیرہنی مقبول ہوئی

شہر میں جب غُنچہ دہنی، گُل پیرہنی، مقبول ہوئی
زُہرہ جبینوں، ماہ وشوں کو بے مہری معمول ہوئی
دلزدگاں کی بات ہی کیا ہے، دلزدگاں کی بات نہ کر
رات کا قصّہ ختم ہوا جب ان کی حکایت طول ہوئی
ہجر کی رُت سوغات بنی، ہم سوختگاں کی بات بنی
جلتے جلتے جل گئے اتنا، راکھ بھی آخر دھول ہوئی

ہم ہی ممکن ہے ترے ناز اٹھانے لگ جائیں

ہم ہی، ممکن ہے تِرے ناز اٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں
تیرے آوارہ، چلو ہم ہی رہیں گے، لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں

Wednesday 5 December 2012

فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو

فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو
وہ کیا بہار کہ پیوند خاک ہو کے رہے
کشاکش روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو
کہاں ہے اور خزانہ، بجز خزانۂ خواب
لٹانے والا لٹاتا رہے، کمی بھی نہ ہو

غیروں سے داد جور و جفا لی گئی تو کیا

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئی تو کیا
گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئی تو کیا
غارتِ گرئ شہر میں شامل ہے کون کون
یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئی تو کیا
اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اِک یاد ہی تو تھی، جو بھلا دی گئی تو کیا

عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی

عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دُعا نہ مانگے کوئی
تمام شہر مکرّم، بس ایک مجرم مَیں
سو میرے بعد، مِرا خُوں بہا نہ مانگے کوئی

بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا؟

بِکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا؟
میرے معبود! آخر کب تماشا ختم ہو گا؟
چراغِ حجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لَو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے؟
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اِک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا
اِک عالمِ خوبی ہے میسّر، مگر اے کاش
اُس گُل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا
اُس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر
اِک حلقۂ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا

شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے

شہرِ گُل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی، کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹی کو ابھی چاک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے اُفق آفاق، کہ بس
محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ

آسمانوں پر نظر کر، انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اِک نظر تُو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ
دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سُوئے سینہٴ احباب دیکھ

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کی لئے پکارا نہیں

Sunday 2 December 2012

ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب سے اُتری تھی تب سے واقف ہیں
کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھچی ہوئی تیغ
سپاہِ ظلم کہ ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
ہے رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازئ شبِ غم کے سبب سے واقف ہیں

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اسکا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو، یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل، جہاں راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا

Wednesday 28 November 2012

سیاہ خانۂ امید رائگاں سے نکل

سیاہ خانۂ امیدِ رائیگاں سے نِکل
کھلی فضا میں ذرا آ، غبارِ جاں سے نکل
عجیب بِھیڑ یہاں جمع ہے ، یہاں سے نکل
کہیں بھی چل مگر اِس شہرِ بے اماں سے نکل
اِک اور راہ، اُدھر دیکھ ، جا رہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے، تُو درمیاں سے نکل

آئینہ لے لے صبا پھر آئی

آئینہ لے لے صبا پھر آئی
بجھتی آنکھوں میں ضیا پھر آئی
تازہ رس لمحوں کی خوشبو لے کر
گُل زمینوں کی ہوا پھر آئی
سرمئ دیس کے سپنے لے کر
شبنمِ زمزمہ پا پھر آئی

کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا

کبھی جب مُدّتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
ابھی اِک شورِ ہاؤ ہو سُنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا

وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے

 وہ سامنے ہوں مِرے اور نظر جھکی نہ رہے

متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے

دئیے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر

اے تند و تیز ہوا! تجھ کو برہمی نہ رہے

بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے

چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے

Tuesday 27 November 2012

کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں

کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
جانے ہم خُود میں کہ ناخُود میں رہا کرتے ہیں
اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی
جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں
جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں

پا بہ زنجیر کرے طوق بنے دار بنے

پا بہ زنجیر کرے، طوق بنے، دار بنے 
حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے 
مُسکراتا ہے اُسے دیکھ کے ہر اہلِ ہوس 
جب کوئی لفظ گریباں کا مرے، تار بنے 
تھا نہ یاروں پہ کچھ ایسا بھی بھروسا لیکن 
اَب کے تو لوگ سرِ بزم یہ اغیار بنے 

دشت خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی

دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی 
میں کہاں ہوں، مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی 
دل میں جو کچھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے 
کاش ہونٹوں پہ مرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یکجا میری 
میرا کھلیان نہ بے درد جلا دے کوئی 

اِک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا

اِک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا 
آ، اور مری تشنگئ جاں میں اُتر جا 
ویرانئ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر 
اِس راہگزر سے نم موسم سا گُزر جا 
طُرفہ ہیں بہت میرے دل و جاں کی پھواریں 
اِس بزم میں آ، اور مثالِ گُلِ تر جا 

وہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اتر گئے

وہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اُتر گئے 
ہم اِک اُسی کی جستجو لئے، نگر نگر گئے 
خیال قُرب اُسی کا سر پہ ابر سا جُھکا رہا 
میانِ دشتِ روزگار، ہم جِدھر جِدھر گئے 
تھیں اُس کے مُڑ کے دیکھنے میں بھی عجب مسافتیں 
حدوں سے شب کی ہم نکل کے جانبِ سحر گئے 

Sunday 18 November 2012

اب ہے خوشی خوشی میں نہ غم ہے ملال میں

اب ہے خوشی خوشی میں نہ غم ہے ملال میں
دنیا سے کھو گیا ہوں تمہارے خیال میں
مجھ کو نہ اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہوں میں تمہارے خیال میں
تاروں سے پوچھ لو میری رودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہوں تمہارے خیال میں

اس کرب مسلسل سے گزر کیوں نہیں جاتا

اس کربِ مُسلسل سے گُزر کیوں نہیں جاتا
احساس میرا زندہ ہے، مر کیوں نہیں جاتا
گُلزارِ تمنّا سے مہک کیوں نہیں اُٹھتی
یہ موسمِ بے برگ و ثمر کیوں نہیں جاتا
خنجر تھا اگر میں، تو میرے وار کہاں ہیں
میں وقت کے سینے میں اُتر کیوں نہیں جاتا

جاگیں گے کسی روز تو اس خواب طرب سے

جاگیں گے کسی روز تو اس خوابِ طرب سے
ہم پُھول ہی چُنتے رہے باغیچۂ شب سے
پھر ایک سفر اور وہی حرفِ رفاقت
سمجھے تھے گزر آئے ہیں ہم تیری طلب سے
خُوش دل ہے اگر کوئی تو کیا اس کا یہاں کام
یہ بارگہِ غم ہے، قدم رکھو ادب سے

آیا نہ ہو گا اس طرح حسن و شباب ریت پر

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام عالی مقام

آیا نہ ہو گا اس طرح حُسن و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہؓ کے تھے سارے گلاب ریت پر
آلِ بتولؓ کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرۂ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر
عشق میں کیا بچائیے، عشق میں کیا لٹائیے
آلِ نبیؐ نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر

کیسے کروں بیان میں رتبہ حسین کا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسین

کیسے کروں بیان میں رُتبہ حسین کا
ناناؐ کے دِیں کے واسطے صدقہ حسین کا
غلبہ ہے آج پھر سے، غاصب یزید کا
مقصود پھر ہے آج وہ جذبہ حسین کا
ظالم کے ظلم و جبر پہ تڑپی تھی سرزمیں
رویا تھا کتنے درد سے کوچہ حسین کا

بقائے عظمت انسان ہے پیام حسین

بقائے عظمتِ اِنسان ہے پیامِ حسینؓ 
شعور و فہم سے ہے ماورأ مقامِ حسینؓ
دلیلِ عظمتِ آدمؑ، وقارِ عیسیٰؑ بھی
سِناں کی نوک پہ وہ گونجتا کلامِ حسینؓ 
حقیر لگتے ہیں مجھ کو، سکندر و دارا
پکارتا ہے کوئی جب مجھے غلامِ حسینؓ 
فلک ستارے زمیں پھول اور میری آنکھیں 
ہر ایک شے کو جہاں میں ہے احترامِ حسینؓ
قسم ہے خاکِ مدینہ کی مجھ کو اے ساغرؔ
لبِ حیات پہ روشن رہے گا نامِ حسینؓ

ساغرؔ شہزاد

Wednesday 31 October 2012

بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام

بدل گیا ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام
چنا ہے مجھ کو نئے عاشقوں نے اپنا اِمام
جہاں سے سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا
وہیں سے مجھ پہ اتارا گیا یہ درد کلام
کھلا مِلا تھا وہ آنکھوں کا مے کدہ شب بھر
نہ پوچھ کیسے چڑھاۓ ہیں ہم نے جام پہ جام

وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح

وہ اس زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح
کوئی نہیں ہے یہاں آج میری ماں کی طرح
اب آنسوؤں کی کتابیں کبھی نہ لِکھوں گا
کہ ڈال دی ہے نئی نالہ و فغاں کی طرح
اسی کے دَم سے یہ مٹی کا گھر منور تھا
وہ جس کی قبر چمکتی ہے کہکشاں کی طرح

سوال ایک تھا لیکن ملے جواب بہت

سوال ایک تھا، لیکن مِلے جواب بہت
پڑھی ہے میں نے محبت کی یہ کتاب بہت
گئی بہار تو پھر کون حال پوچھے گا
کرو نہ چاہنے والوں سے اِجتناب بہت
یہ آسمان و زمیں سب تمہیں مبارک ہوں
مرے لیے ہے یہ ٹوٹا ہوا رباب بہت

ان نگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے

ان نِگاہوں کو ہم آواز کیا ہے میں نے
تب کہیں گِیت کا آغاز کیا ہے میں نے
ختم ہو تاکہ ستاروں کی اجارہ داری
خاک کو مائلِ پرواز کیا ہے میں نے
آپ کو اِک نئی خِفت سے بچانے کے لیے
چاندنی کو نظر انداز کیا ہے میں نے

Monday 29 October 2012

وہ مرے دل کا حال کیا جانے

وہ مِرے دل کا حال کیا جانے
سوزِ رنج و ملال کیا جانے
ہر قدم فتنہ ہے، قیامت ہے
آسماں تیری چال کیا جانے
صبر کو سب کمال کہتے ہیں
عاشقی یہ کمال کیا جانے

کس کو دیکھا ہے یہ ہوا کیا ہے

کِس کو دیکھا ہے، یہ ہُوا کیا ہے
دِل دھڑکتا ہے، ماجرا کیا ہے
اِک محبت تھی، مِٹ چُکی یاربّ
تیری دُنیا میں اب دھرا کیا ہے
دل میں لیتا ہے چُٹکیاں کوئی
ہائے، اِس درد کی دوا کیا ہے

ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے

ان رَس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں پہ قضا کھیل رہی ہے
ہیں نرگس و گُل کِس لئے مسحُورِ تماشا
گُلشن میں کوئی شوخ ادا کھیل رہی ہے
اس بزم میں جائیں تو یہ کہتی ہیں ادائیں
کیوں آئے ہو، کیا سر پہ قضا کھیل رہی ہے

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا

پیاری چلی جاؤ گی کیا

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر پیاری چلی جاؤ گی کیا
میری نگاہِ شوق کو فُرقت میں ترساؤ گی کیا
اُف حشرتک یہ چاند سی صورت نہ دِکھلاؤ گی کیا
اور پھر نہیں آؤ گی کیا
پیاری چلی جاؤ گی کیا

جو بہاروں میں نہاں رنگ خزاں دیکھتے ہیں

جو بہاروں میں نِہاں رنگِ خزاں دیکھتے ہیں
دیدۂ دل سے وہی سیرِ جہاں دیکھتے ہیں
ایک پردہ ہے غموں کا، جسے کہتے ہیں خوشی
ہم تبسم میں نہاں، اشکِ رواں دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے کیا رنگ جہاں نے بدلے
دیدۂ اشک سے نیرنگِ جہاں دیکھتے ہیں

عید آئی آ کہ ساقی عید کا ساماں کریں

عید آئی، آ کہ ساقی! عید کا ساماں کریں
دن ہے قُربانی کا، ہم بھی توبہ کو قُرباں کریں
مۓ کدے کے بام پر چڑھ کر اذانِ شوق دیں
مست ہیں، یوں پیروئ شیوۂ ایماں کریں
انجم و گُل سے کریں آراستہ بزمِ طرب
ساغرِ ناپید کو اس بزم میں رقصاں کریں

Sunday 21 October 2012

تن کی سوکھی دھرتی پر جب نام لکھا تنہائی کا

تن کی سُوکھی دھرتی پر جب نام لِکھا تنہائی کا
بن کی پیاس بُجھانے آیا اِک دریا تنہائی کا
سب پہچانیں قائم رکھنا ہرگز آساں کام نہ تھا
درد نے جب جب کروٹ بدلی، در کھولا تنہائی کا
خواب جزیرے کھوجتے کھوجتے پہنچا ہوں اس حالت کو
ورنہ عادت سے تو نہیں تھا، میں رَسیا تنہائی کا

پھولوں رنگوں خوشبوؤں کی باتیں کرنے سے

پھولوں رنگوں خوشبوؤں کی باتیں کرنے سے
جی کا روگ کہاں جاتا ہے، ہنستے رہنے سے
آ ہی گئی ہے لب پر تو اب ٹال مٹول نہ کر
اور بھی کچھ دُکھ بڑھ جائے گا بات بدلنے سے
بڑھ جاتا ہے اور بھی کچھ کچھ تنہائی کا روگ
وقت اگرچہ کٹ جاتا ہے، چلتے رہنے سے

ترک الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے

ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
اُس کی خواہش ہے تو یہ بات بھلا دی جائے
رات سر پر ہے کٹھن راستہ، مسافر تم کو
لوٹ آنے کی، یا منزل کی دعا دی جائے
خُود وہ آئے گا سرِ بام جو آنا ہو گا
اُس کے دروازے پہ دستک نہ صدا دی جائے

اک بجھ گیا اک اور دیا لے کے آ گئی

اِک بُجھ گیا اِک اور دِیا لے کے آ گئی
مِلنے کی آس کچا گھڑا لے کے آ گئی
کِن منزلوں کو شوقِ مسافت میں کھو دیا
کِن راستوں پہ لغزشِ پا لے کے آ گئی
ٹِک کر نہ بیٹھ پائے اسیرانِ رنگ و بُو
خواہش، فریبِ آب و ہوا لے کے آ گئی

طواف شہر ناپُرساں میں اپنا دن گُزرتا ہے

طوافِ شہر ناپُرساں میں اپنا دن گُزرتا ہے
کہیں دیوار آتی ہے، نہ کوئی دَر نکلتا ہے
مگر اِک فاصلہ اوّل سے آخر تک برابر ہے
نہ ہم منزل بدلتے ہیں، نہ وہ رَستہ بدلتا ہے
ہماری بیشتر باتیں، فقط محدود ہم تک ہیں
گُزر جاتی ہے جب اِک عمر، تب یہ بھید کُھلتا ہے

Friday 12 October 2012

بہار نام کی ہے کام کی بہار نہیں

بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں
کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں
رہے گی یاد اُنہیں بھی، مُجھے بھی، وصل کی رات
کہ اُن سا شوخ نہیں، مُجھ سا بے قرار نہیں
سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی
اب اُن کے آنے کا ہم کو بھی اِنتظار نہیں

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے

اے دل وہ عاشقی کے فسانے کِدھر گئے
وہ عُمر کیا ہوئی، وہ زمانے کِدھر گئے
تھے وہ بھی کیا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم
وہ دن کہاں ہیں، اب وہ زمانے کِدھر گئے
ہے نجد میں سکوت، ہواؤں کو کیا ہُوا
لیلائیں ہیں خموش، دِوانے کِدھر گئے

کافر بنوں گا کفر کا ساماں تو کیجئے

کافر بنُوں گا، کُفر کا ساماں تو کیجئے
پہلے گھنیری زُلف پریشاں تو کیجئے
اس نازِ ہوش کو کہ ہے موسیٰؑ پہ طعنہ زن
اِک دن نقاب اُلٹ کے پشیماں تو کیجئے
عُشّاق، بندگانِ خُدا ہیں، خُدا نہیں
تھوڑا سا نرخِ حُسن کو ارزاں تو کیجئے

نور رگوں میں دوڑ جائے پردۂ دل جلا تو دو

نُور رگوں میں دوڑ جائے، پردۂ دل جلا تو دو
دیکھنا رقص پھر مرا، پہلے نقاب اُٹھا تو دو
رنگ ہے زرد کیوں مرا، حال ہے غیر کس لیے
ہو جو بڑے ادا شناس، اِس کا سبب بتا تو دو
میرے مکاں میں تُم مکیں، میں ہوں ‌مکاں سے بے خبر
ڈھونڈ ہی لوں گا میں تُمہیں، مُجھ کو مرا پتا تو دو

شام غم کی نہیں سحر شاید

شامِ غم کی نہیں سحر شاید
یونہی تڑپیں گے عُمر بھر شاید
حالِ دل سے مِرے ہیں سب واقف
صرف تُو ہی ہے بے خبر شاید
روز دیدار تیرا کرتا ہوں
تجھ کو حیرت ہو جان کر شاید

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا

مِلا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا 
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا 
یہی تو ہیں دو ستُونِ مُحکم ان ہی پہ قائم ہے نظمِ عالم 
یہ ہی تو ہے رازِ خُلد و آدمؑ، نگاہ میری، شباب تیرا 
صبا تصدّق ترے نفس پر، چمن تیرے پیرہن پہ قرباں
شمیمِ دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا 

گلشن کی تباہی کا الم کم تو نہیں ہے

گلشن کی تباہی کا اَلم کم تو نہیں ہے
دل خوں ہے مگر فرصتِ ماتم تو نہیں ہے
ڈر یہ ہے کہ مانوس نہ ہو جاؤں خزاں سے
معلوم ہے پھولوں کا یہ موسم تو نہیں ہے
یہ سچ ہے کہ ہر غم کو بھلا دے گا زمانہ
لیکن یہ کسی زخم کا مرہم تو نہیں ہے

میں‌ اس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا

امی جان


میں‌ اِس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا

عدیلؔ ماں کی جگہ کوئی ہو نہیں‌ سکتا

مِرے خدا! یہاں درکار ہے مسیحائی

میں اپنے خُون کو اشکوں سے دھو نہیں سکتا

یہ اور بات ہے ہو جائے معجزہ کوئی

یہ غم خُوشی میں بدل جائے، ہو نہیں سکتا

رونقیں گھر میں رہیں بس اسی آواز کے ساتھ

ہم، امی اور تنہائی


رونقیں گھر میں رہیں بس اُسی آواز کے ساتھ

گو تھیں تکلیف میں‌ لیکن رہیں اعجاز کے ساتھ

بے غرض مِلتی رہیں ماں کی دُعائیں ہر دم

لوگ آواز لگاتے نہیں آواز کے ساتھ

وقتِ رُخصت بڑی رونق تھی، سو آیا یہ خیال

کون آئے گا یہاں اب مِری پرواز کے ساتھ؟

خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں

خبر تھی گھر سے وہ نِکلا ہے مِینہ برستے میں
تمام شہر لیے چھتریاں تھا رَستے میں
بہار آئی تو اِک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جَھڑتے تھے پُھول ہنستے میں
کہاں کے مکتب و مُلّا، کہاں کے درس و نصاب
بس اِک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں 

جانے نشے میں کہ وہ آفت جاں خواب میں تھا

جانے نشّے میں کہ وہ آفتِ جاں خواب میں تھا
جیسے اِک فتنہ بیدار، رواں خواب میں تھا
وہ سرِ شام، سمندر کا کنارا، تِرا ساتھ
اب تو لگتا ہے کہ جیسے یہ سماں خواب میں تھا
جیسے یادوں کا دریچہ کوئی وا رہ جائے
اِک سِتارہ مِری جانب نِگراں خواب میں تھا

Saturday 6 October 2012

بتان مہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں

بُتانِ مہ وَش، اُجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جِس کی جان جاتی ہے اُسی کے دل میں رہتے ہیں
ہزاروں حسرتیں وہ ہیں کہ روکے سے نہیں رُکتیں
بہت ارمان ایسے ہیں کہ دل کے دل میں رہتے ہیں
خُدا رکھے محبت کے لئے آباد دونوں گھر
میں اُن کے دل میں رہتا ہوں، وہ میرے دل میں رہتے ہیں

دوستو یوں بھی نہ رکھو خم و پیمانہ کھلے

دوستو! یُوں بھی نہ رکھو خُم و پیمانہ کُھلے
چند ہی روز ہوئے ہیں ابھی مئے خانہ کُھلے
اِک ذرا رنگ پہ آئے تو سہی جوشِ بہار
اِک ذرا ڈھنگ کا موسم ہو تو دیوانہ کُھلے
جِس کے ہِجراں میں کتابوں پہ کتابیں لِکھ دیں
اُس پہ گر حال ہمارا نہیں کُھلتا، نہ کُھلے

بول ہوا اس پار زمانے کیسے ہیں

بول ہوا! اُس پار زمانے کیسے ہیں
اُجڑے شہر میں یار پُرانے کیسے ہیں
چاند اُترتا ہے اب کِس کِس آنگن میں
کِرنوں سے مِحرُوم گھرانے کیسے ہیں
لب بستہ دروازوں پر کیا بِیت گئی
گلیوں سے منسُوب افسانے کیسے ہیں

گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی

گِلہ

گِلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹُوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بِکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بِچھڑے تو استخواں ٹھہرے
گِلہ ہوا سے نہیں، تُندیٔ ہوا سے نہیں

کل شب دل آوارہ کو سینے سے نِکالا

کل شب دلِ آوارہ کو سِینے سے نِکالا
یہ آخری کافر بھی مدِینے سے نِکالا
یہ بِھیڑ نکلتی تھی کہاں خانۂ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرِینے سے نِکالا
ہم خون بہا کر بھی ہوئے باغ میں رُسوا
اس گُل نے مگر کام پسِینے سے نِکالا

ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں

ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں
دِیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں
امانتِ سحر و شام چھوڑ آیا ہوں
کہیں چراغ، کہیں جام چھوڑ آیا ہوں
کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں

Thursday 4 October 2012

کسی کے لمس سے پہلے بدن غبار کیا

کسی کے لَمس سے پہلے بدن غبار کیا
پھر اس کے بعد جنوں کی ندی کو پار کیا
انہیں بگاڑ دیا جو صفوں کے ربط میں تھیں
جو چیزیں بکھری ہوئی تھیں انہیں قطار کیا
بنی تھیں پردۂ جاں پر ہزارہا شکلیں
خبر نہیں کسے چھوڑا، کسے شمار کیا

Saturday 29 September 2012

زندگی ڈر کے نہیں ہوتی بسر جانے دو

زندگی ڈر کے نہیں ہوتی بسر، جانے دو
جو گُزرنی ہے قیامت وہ گُزر جانے دو
دیکھتے جانا بدل جائے گا منظر سارا
یہ دُھواں سا تو ذرا نیچے اُتر جانے دو
پِھر چلے آئے ہو تم میری مسیحائی کو
پہلے کچھ رِستے ہوئے زخم تو بھر جانے دو

فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے

فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے 
دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے
کیسے دم توڑ گئیں سینے میں رفتہ رفتہ
حسرتیں حسرتِ ناکام سے پہلے پہلے 
باعثِ فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا
گھر اُجڑتے تھے اِس اِلزام سے پہلے پہلے

جو میں نے چاہا تھا ہو جائے وہ ہوا تو نہیں

جو میں نے چاہا تھا، ہو جائے، وہ ہُوا تو نہیں
مگر یہ درد مری ذات سے جُدا تو نہیں
وہ بے نیاز ہے تم سے تو چھوڑ دو اُس کو
وہ ایک شخص ہے آخر کوئی خُدا تو نہیں
اُسی کی روشنی شامل ہے میرے اشکوں میں
جو دِیپ اُس نے جلایا تھا وہ بُجھا تو نہیں

تیرے ابرووں کی حسیں کماں

تیرے ابرووں کی حسیں کماں، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم، نہ کشش ہلال کے خم سے کم
نہ ستا مجھے، نہ رُلا مجھے، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے، تری کائناتِ سِتم سے کم
یہ کرم ہے کم، سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا، رہی بات میری تو کم سے کم

دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم

دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم
آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی
ویسے تو کسی طور ٹھکانے کے نہیں ہم
اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک
اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں ہم

Monday 24 September 2012

راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے

راز یہ سب کو بتانے کی ضرورت کیا ہے
دل سمجھتا ہے تِرے ذکر میں لذت کیا ہے
جس میں موتی کی جگہ ہاتھ میں مٹی آئے
اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت کیا ہے
اپنے حالات پہ مائل بہ کرم وہ بھی نہیں
ورنہ اس گردشِ دوراں کی حقیقت کیا ہے

گلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں

گِلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
مگر ارادۂ اِظہار، زیرِ لب بھی نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں
میں صاف گو ہوں، مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
جفا کی طرح، مجھے ترکِ دوستی بھی قبول
ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو، اور اب بھی نہیں

زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت

زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اِس لیے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندۂ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گریزاں بھی رہے
اس کا یہ پِندارِ محبوبی مجھے بھایا بہت

Sunday 16 September 2012

گرتے گرتے ایک طوفان قیامت زا ہوا

گِرتے گِرتے ایک طُوفانِ قیامت زا ہوا
وہ جو اِک آنسو مژہ پر تھا مرے ٹھہرا ہوا
اب تو آنکھیں کھول او افتادۂ کُوئے حبیب
جھانکتا ہے کوئی دروازے سے شرمایا ہوا
ذرے ذرے میں تھی ساری، ایک موجِ انقلاب
منظرِ فطرت کو میں دیکھا کِیا، سہما ہوا

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمام یارو تکلیفِ کرم کوشی
بدل دیتی ہے دنیا اِک نگاہِ ناتمام اکثر
مِری رِندی بھی کیا رِندی، مِری مستی بھی کیا مستی
مِری توبہ بھی بن جاتی ہے مئے خانہ بہ جام اکثر

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بُو
میں یہ سمجھا، جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں، سزا دے اے خدائے عشق! اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکرِ یار آ ہی گیا

غم ہجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں

غمِ ہِجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
جاں بلب ہے ترا بیمار، سنا ہے کہ نہیں
وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں
جھانک لے سینے میں کمبخت ذرا، ہے کہ نہیں
مخمصے میں تری آہٹ نے مجھے ڈال دیا
یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں

Saturday 15 September 2012

آوارہ; اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

آوارہ

شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی

سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے

سورج کا ہر اِک شے سے سروکار الگ ہے
ہے رات الگ ، صبح کا اخبار الگ ہے
کچھ خون کی سرخی سی چمکتی ہے زمین پر
سَر دھڑ سے الگ، ہاتھ سے تلوار الگ ہے
سنتے تھے بہت شور مسیحائی کا، جس کی
اب وقت پڑا ہے تو وہ بیمار الگ ہے

دل تباہ نے اک تازہ زندگی پائی

دلِ تباہ نے اِک تازہ زندگی پائی
تمہیں چراغ مِلا، ہم نے روشنی پائی
ترے خیال سے فُرصت اگر کبھی پائی
بھری بھری سی یہ دُنیا، تہی تہی پائی
سِتم بھی تیرے تغافُل کو سازگار آیا
وفا کی داد بھی ہم نے کبھی کبھی پائی

Sunday 9 September 2012

تم کیا تھے

تم کیا تھے

تم کیا تھے
جب یہ جانا
تو دیر بہت ہو چکی تھی
بِنا دیکھے، بِنا جانے
ہم نے تو تَن مَن وار دیا

میرے پاس تھا ہی کیا

میرے پاس تھا ہی کیا؟

بہت خوبصورت جذبے لے کر چلا تھا میں
بڑے معصوم اور سچے تھے
اور میرے پاس تھا ہی کیا
جذبوں کی سچائی کے علاوہ
مگر بازارِ وفا میں

اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا

اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا

اب کوئی تاج محل نہیں بنے گا
ممتازوں نے پیدا ہونا چھوڑ دیا
شاہ جہان سے گزر گئے
اب معیارات بھی زمانے کے بدل گئے
شہنشاہوں کی جگہ جمہوریت نے سہرے باندھ لیے

Thursday 6 September 2012

شب خانہ رقیب میں تا صبح سو چکے

شب خانۂ رقیب میں تا صبح سو چکے
اب فائدہ مکرنے سے ہم دیکھ تو چکے
کہتے ہو جنسِ دل کو ہماری بغل میں دیکھ
بولو نہ بیچتے ہو تو قیمت کہو چکے
قیمت ہے ایک بوسہ دمِ نقد ایسے جی
تم چاہتے ہو مفت میں کچھ لو نہ دو چکے

Tuesday 4 September 2012

میں ہوں انشا انشا انشا

میں ہوں انشاؔ، انشاؔ، انشاؔ

کیوں جانی پہچانی گئی ہو
اِنشاؔ جی کو جان گئی ہو
جس سے شام سویرے آ کر
فون کی گھنٹی پر بُلوا کر
کیا کیا بات کیا کرتی تھیں
کیا کیا عہد لیا کرتی تھیں

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے

شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب
کہاں ڈُوبا ہے جا کے دل کا مہتاب
ستارے! صُبحِ خنداں کے ستارے
بھلا اِتنی بھی جلدی کیا ہے پیارے

سب نے انسان کو معبود بنا رکھا ہے

سب نے اِنسان کو معبُود بنا رکھا ہے
اور سب کہتے ہیں اِنسان میں کیا رکھا ہے
یُوں بظاہر تو دِیا میں نے بُجھا رکھا ہے
درد نے دل میں الاؤ سا لگا رکھا ہے
منصفو! کُچھ تو کہو، کیوں سرِ بازارِ حیات
مُجھ کو اِحساس نے سُولی پہ چڑھا رکھا ہے

عشق بے دم ہے تو فردوس وفا مت ڈھونڈو

عِشق بے دم ہے تو فردوسِ وفا مت ڈھونڈو
ریت پھانکی ہے تو گندم کا مزا مت ڈھونڈو
سر سے پا تک ہوں جب اُتری ہوئی سرسوں کی رُتیں
پِھر کِسی ہاتھ پہ نیرنگِ حِنا مت ڈھونڈو
دھجّیاں اپنی حمیّت کی، چُھپاؤ گے کہاں
سر سے نوچی ہوئی، بیٹی کی رِدا مت ڈھونڈو

اب تو ہیں اس شوق گستاخانہ سے بیگانہ ہم

اب تو ہیں اس شوقِ گستاخانہ سے بیگانہ ہم
بس نظر سے چُوم لیتے ہیں لبِ پیمانہ ہم
رات کو تاروں سے، دن کو ذرّہ ہائے خاک سے
کون ہے، جس سے نہیں سُنتے تیرا افسانہ ہم
ضبط کی حد سے اگر شوقِ فراواں بڑھ چلا
آنسوؤں سے بھر کے پی جائیں گے اِک پیمانہ ہم

گھبرا کے شب ہجر کی بے کیف سحر میں

گھبرا کے شبِ ہجر کی بے کیف سحر میں
تارے اُتر آئے ہیں میرے دیدۂ تر میں
وہ آڑ میں پردے کے، تیری نِیم نِگاہی
ٹُوٹے ہوئے اِک تِیر کا ٹُکڑا ہے جِگر میں
اب وقت کے قدموں میں تحیّر کی ہے زنجِیر
میں تیری نظر میں ہوں، جہاں میری نظر میں

کہانیاں غم ہجراں کی میں نے کس سے کہیں

کہانیاں غمِ ہجراں کی، میں نے کِس سے کہیں
میرے قریب وہ بیٹھے ہوئے بھی ہیں، کہ نہیں
تیرے کرم کا سہارا تو تھا اُمیدوں کو
مگر یہ چِڑیاں شکستہ پروں سے اُڑ نہ سکیں
نہیں تو خاک ہیں، یہ قوّتِ حیات ہے کیا
وہ اس جہان میں پوشیدہ ہیں کہیں نہ کہیں

Saturday 1 September 2012

شعر کسی کے ہجر میں کہنا حرف وصال کسی سے

شعر کسی کے ہِجر میں کہنا حرفِ وصال کسی سے
ہم بھی کیا ہیں دھیان کسی کا اور سوال کسی سے
ساری متاعِ ہستی اپنی خواب و خیال تو ہیں
وہ بھی خواب کسی سے مانگے اور خیال کسی سے
ایسے سادہ دل لوگوں کی چارہ گری کیسے ہو
درد کا درماں اور کوئی ہو، کہنا حال کسی سے

کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو

کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
ہم لوگ نَوا گر ہیں، ہمیں اِذنِ نَوا دو
ہم آئینے لائے ہیں سرِ کُوئے رقِیباں
اے سنگ فروشو! یہی اِلزام لگا دو
لگتا ہے کہ میلہ سا لگا ہے سرِ مقتل
اے دل زدگاں! بازوئے قاتل کو دُعا دو

فاصلے اتنے بڑھے ہجر میں آزار کے ساتھ

فاصلے اتنے بڑھے ہِجر میں آزار کے ساتھ
اب تو وہ بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نِکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پہ عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
اِک تو تم خواب لیے پِھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ

Thursday 30 August 2012

نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن

نہ انتظار کی لذّت، نہ آرزو کی تھکن
بُجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قدوگیسُو ہیں کل کے دار و رسن

یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے

یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشِیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سحر تک کوئی نہیں کوئی ہے
نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی
“مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے
یہ ہم کہ راندۂ افلاک تھے، کہاں جاتے؟
یہی بہت ہے کہ پاؤں تلے زمِیں کوئی ہے

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرُورتیں تھیں بہت
وگرنہ ترکِ تعلّق کی صُورتیں تھیں بہت
مِلے تو ٹُوٹ کے روئے نہ کھل کے باتیں کیں
کہ جیسے اب کہ دلوں میں کدُورتیں تھیں بہت
بھلا دیئے ہیں تیرے غم نے دُکھ زمانے کے
خُدا نہیں تھا تو پتّھر کی مُورتیں تھیں بہت

Tuesday 28 August 2012

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے

ہم تو یُوں خُوش تھے کہ اِک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اُس کے بھی ارمان میں ہے
ایک ضرب اور بھی اے زندگئ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مِری جان میں ہے
میں تُجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تُو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے

سن بھی اے نغمہ سنج کنج چمن اب سماعت کا اعتبار کسے

سُن بھی اے نغمہ سنجِ کنجِ چمن اب سماعت کا اعتبار کِسے
کون سا پیرہن سلامت ہے، دیجیے دعوتِ بہار کِسے
جل بُجھیں دردِ ہجر کی شمعیں، گُھل چکے نیم سوختہ پیکر
سر میں سودائے خام ہو بھی تو کیا، طاقت و تابِ انتظار کِسے
نقدِ جاں بھی تو نذر کر آئے اور ہم مُفلسوں کے پاس تھا کیا
کون ہے اہلِ دل میں اتنا غنی، اس قدر پاسِ طبعِ یار کِسے

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن، گل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گُل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گُل ہیں نہ غُنچے نہ بُوٹے نہ پتّے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

Sunday 26 August 2012

کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں

کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں
میری آنکھیں مُجھے دریا میں بہانے لگ جائیں
کبھی اِک لمحۂ فُرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مُجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر، برف پِگھلنے میں زمانے لگ جائیں

میری داستان الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا

میری داستانِ اَلم تو سُن، کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
میرا مُدعا نہیں آئے گا، تیرا تذکرہ نہیں آئے گا
میری زندگی کے النگ میں کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تیری واپسی بھی ہوئی اگر تُجھے راستہ نہیں آئے گا
اگر آئے دن تیری راہ میں تیری کھوج میں تیری چاہ میں
یونہی قافلے کہ جو لُٹ گئے، کوئی قافلہ نہیں آئے گا

Saturday 25 August 2012

زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا

زندگی یُوں تھی کہ جینے کا بہانہ تُو تھا
ہم فقط زیبِ حکایت تھے، فسانہ تُو تھا
ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں، وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تُو تھا
اب کے کچھ دل ہی نہ مانا کہ پلٹ کر آتے
ورنہ ہم دربدروں کا ٹھکانہ تُو تھا

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

ایسے چُپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
تیرا ملنا بھی جُدائی کی گھڑی ہو جیسے
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
کتنے ناداں ہیں تِرے بُھولنے والے کہ تُجھے
یاد کرنے کے لیے عمر پڑی ہو جیسے

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے

اپنی محبت کے افسانے، کب تک راز بناؤ گے
رُسوائی سے ڈرنے والو! بات تُمہی پھیلاؤ گے
اُس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو! تم تنہا رہ جاؤ گے
ہجر کے ماروں کی خُوش فہمی، جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یُوں شب کٹ جائے گی، جیسے تم آ جاؤ گے

جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے

جو سر بھی کشِیدہ ہو اُسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے
وہ کون سِتمگر تھے کہ یاد آنے لگے ہیں
تُو کیسا مسیحا ہے، کہ بیمار کرے ہے
اب روشنی ہوتی ہے کہ گھر جلتا ہے دیکھیں
شُعلہ سا طوافِ در و دیوار کرے ہے

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

یُوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تُجھے اے دلِ تنہا میرے
وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مِرے ہیں، یہی اعداء میرے
میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے

تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ

تیرا غم اپنی جگہ، دُنیا کے غم اپنی جگہ
پِھر بھی اپنے عہد پر قائم ہیں ہم اپنی جگہ
کیا کریں، یہ دل کسی کی ناصحا! سُنتا نہیں
آپ نے جو کُچھ کہا اے محترم! اپنی جگہ
ہم مؤحد ہیں، بُتوں کے پُوجنے والے نہیں
پر خُدا لگتی کہیں، تو وہ صنم اپنی جگہ

آنسو نہ روک دامن زخم جگر نہ کھول

آنسو نہ روک، دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو، نگہِ یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے، تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نَم نہیں تھی تو اب چشمِ تَر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن، بِچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پَر نہ کھول

ہم کو تو انتظار سحر بھی قبول ہے

ہم کو تو انتظارِ سحر بھی قبُول ہے
لیکن شبِ فراق! ترا کیا اصُول ہے
اے ماہِ نِیم شب! تری رفتار کے نثار
یہ چاندنی نہیں ترے قدموں کی دھُول ہے
کانٹا ہے وہ، کہ جس نے چمن کو لہُو دیا
خُونِ بہار جس نے پِیا ہے، وہ پُھول ہے

راہوں پہ نظر رکھنا ہونٹوں پہ دعا رکھنا

گیت

راہوں پہ نظر رکھنا ہونٹوں پہ دُعا رکھنا
آ جائے کوئی شاید، دروازہ کُھلا رکھنا
احساس کی شمع کو، اِس طرح جلا رکھنا
اپنی بھی خبر رکھنا، اُس کا بھی پتہ رکھنا
راتوں کو بھٹکنے کی دیتا ہے سزا مُجھ کو
دُشوار ہے پہلُو میں، دل تیرے بِنا رکھنا

پھول بن کر تری ہر شاخ پہ کھلتا میں تھا

پھول بن کر تِری ہر شاخ پہ کھلتا میں تھا
خُوشبوئیں تُجھ میں اُترتی تھیں، مہکتا میں تھا
میری سانسوں میں گھُلی تھیں تِری صُبحیں شامیں
تیری یادوں میں گُزرتا ہوا عرصہ میں تھا
شور تھا جیسے سمندر میں ہو گِرتا دریا
اور جب غور سے دیکھا تو اکیلا میں تھا

تو معمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مجھے

تُو مُعمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مُجھے
تُو سمندر ہے تو پھر تہ میں اترنا ہے مجھے
تُو نے سوچا تھا کہ جلووں سے بہل جاؤں گا
ایسے کتنے ہی سرابوں سے گزرنا ہے مُجھے
قہر جتنا ہے تیری آنکھ میں برسا دے، مگر
اسی گرداب میں پھنس کر تو ابھرنا ہے مجھے

زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی

زمانہ خُوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غُلام گردشوں میں ساری عُمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قیامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی

خزانہ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ

خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہلِ مہر و محبت ہیں، دل نکال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
ذرا سی دیر کا ہے یہ عروجِ مال و منال
ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ

یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں

یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں، وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
ہوا کی گرم خرامی سے پڑ رہے ہیں بھنور
یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں

Thursday 23 August 2012

جوگی

جوگی

دیر ہوئی، جب میں چھوٹا سا اِک بچہ تھا
راہ میں مُجھ کو ایک جوگی نے روکا تھا
“تیرے ہاتھ کی ریکھا دیکھنا چاہتا ہوں
ماتھے پہ تیرے جو لِکھا ہے، وہ دیکھنا چاہتا ہوں“
یہ کہہ کر تھام لی اُس نے، میری ہتھیلی
جیسے بُوجھے کوئی پہیلی

فردا

فردا

ہاری ہوئی رُوحوں میں
اِک وہم سا ہوتا ہے
تم خُود ہی بتا دو نا
سجدوں میں دَھرا کیا ہے؟
اِمروز حقیقت ہے
فردا کی خُدا جانے

فروگذاشت

فروگذاشت

درد رُسوا نہ تھا زمانے میں
دل کی تنہائیوں میں بستا تھا
حرفِ ناگُفتہ تھا، فسانۂ دل
ایک دن جو اُنہیں خیال آیا
پُوچھ بیٹھے“ اداس کیوں ہو تم؟“
“بس یُونہی“ مسکرا کے میں نے کہا

موسم وصال کا گیت

موسمِ وصال کا گیت 

لال کپڑوں میں آ
دھوپ کے کیسری بھیس میں
من کے سندیس میں
بن کے سورج مُکھی
آنکھ میں لہلہا
لال کپڑوں میں آ
لال کپڑوں میں آ

لمحہ لمحہ ہر اشارے پر سفر ہوتا رہا

لمحہ لمحہ ہر اشارے پر سفر ہوتا رہا
راستے بنتے گئے میں منتشر ہوتا رہا
ڈھونڈتے ہو تم کہاں اس روز و شب کے درمیاں
تھا زمانہ اور جو مجھ میں بسر ہوتا رہا
شہر والے اپنے سائیوں میں سمٹ کر سو گئے
چاند شب بھر ساتھ میرے در بدر ہوتا رہا

تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ

تُو رنگ ہے، غُبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پُھول ہے، شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو رونقِ حیات ہے، تُو حُسنِ کائنات
اُجڑا ہوا دیار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پیکرِ وفا ہے، مجسّم خلوص ہے
بدنام روزگار ہیں تیری گلی کے لوگ

ہم مسافر ہیں میری جان

ہم مسافر ہیں میری جان 

ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم تو بارش سے بھی ڈر جاتے ہیں
اور دھوپ سے بھی
اپنے قدموں کے نشانوں سے مِٹائیں جو لہو کے دھبے
راستے غصے میں آ جاتے ہیں

سوہنی دھیان

سوہنی دھیان

تم ہی بتاؤ
اس نے ان کچّے خوابوں کے بَل پر تیرنا کب سیکھا تھا؟
چڑھتے جوبن کے ساحل پر
اِک باغی خواہش کا موسم
اس کو پاگل کر دیتا تھا

اے غزال شب

اے غزالِ شب

اے غزالِ شب
تیری پیاس کیسے بجھاؤں میں
کہ دکھاؤں میں وہ سراب، جو میری جاں میں ہے
وہ سراب ساحرِ خوف ہے
جو سحر سے شام کے رہگزر میں

Wednesday 22 August 2012

جو ہمسفر تھے ہوئے گرد راہ سب میرے

جو ہمسفر تھے، ہوئے گردِ راہ سب میرے
کہ سیفؔ ولولے تھے بے پناہ سب میرے
کچھ اِس طرح مری فردِ عمل کی ہے تقسیم
ثواب آپ کے سارے، گُناہ سب میرے
سُنے گا کوئی نہ میری سرِ عدالتِ ناز
اُسی کی بات کریں گے گواہ سب میرے

سب منتظر ہیں وار کوئی دوسرا کرے

سب مُنتظر ہیں وار کوئی دُوسرا کرے
مُنہ زور کو شکار کوئی دوسرا کرے
وحشت ملے نہ اُس کی کبھی دیکھنے کو بھی
آنکھیں بھی اُس سے چار کوئی دوسرا کرے
ہر شخص چاہتا ہے اُسے ہو سزائے جُرم
پر اس کو سنگسار کوئی دوسرا کرے

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا
آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر لے کے آ گیا
دیکھو تو کیسے چاند کی انگلی پکڑ کے میں
اس شوخ سے مِلن کی سحر لے کے آ گیا
کس زعم میں نجانے، منانے گیا اسے
تہمت سی ایک، اپنے ہی سر لے کے آ گیا

کیا بھروسا ہے انہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا

کیا بھروسا ہے اِنہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا
بِن ترے مر ہی نہ جائیں ترے بیمار، نہ جا
مُجھ کو روکا تھا سبھی نے کہ ترے کُوچے میں
جو بھی جاتا ہے، وہ ہوتا ہے گرفتار، نہ جا
ناخدا سے بھی مراسم نہیں اچھے تیرے
اور ٹُوٹے ہوئے کشتی کے بھی پتوار، نہ جا

ہم نے ترے ملال سے رشتہ بحال کر لیا

ہم نے ترے ملال سے رِشتہ بحال کر لیا
سارا جہاں بھلا دیا، تیرا خیال کر لیا
شہرِ غمِ جہاں میں تھے سو سو طرح کے غم، مگر
ہم نے پسند جانِ جاں! تیرا ملال کر لیا
تیرے بھی لَب ہِلّے نہیں، میرے بھی لَب ہِلّے نہیں
تُو نے جواب دے دیا، میں نے سوال کر لیا

راستہ بدلنے تک

راستہ بدلنے تک

اوٹ میں محبت کی
چُھپ کے وار کرنے کا
اِس قدر مہارت سے
کھیل اُس نے کھیلا تھا
بے خبر رہا ہوں میں
اَنت چال چلنے تک
راستہ بدلنے تک

اس سنگ سے بھی پھوٹی ہے کیا آبشار دیکھ

اس سنگ سے بھی پھوٹی ہے کیا آبشار دیکھ
آنکھیں نہ موند، اس کو ذرا اشکبار دیکھ
وابستہ تیرے ساتھ ہیں اِس دل کی دھڑکنیں
کتنا ہے دِل پہ میرے تجھے اختیار دیکھ
ہوتا نہیں ہے یہ بھی تری یاد میں مُخل
زنجیر ہو گیا ہے غمِ روزگار دیکھ

وائرس

وائرس

دِل میں رہتے ہیں، چاٹتے ہیں لہُو
رَفتہ رَفتہ یہ کرتے رہتے ہیں
کھوکھلی جسم و جاں کی دِیواریں
جس طرح چاٹ لیتی ہے دِیمک
سبز اشجار کی جواں لکڑی
وائرس ہیں یہ دِل کے اَرماں بھی

صغیر صفی

بے بسی

بے بسی

کھیل ہے مقدر کا
مِلنا اور بِچھڑ جانا
زِیست کی جو گاڑی ہے
یہ تو بس مقدّر کے
راستوں پہ چلتی ہے
راستے جُدا سب کے
منزلیں الگ سب کی

ضد

ضِد

تم نے کہا تھا
یاد ہے تم کو
کہ بہت بولتے ہو تم
بس اُس دن سے
میں نے اِن ہونٹوں پر تیرے
پیار کے قُفل لگا رکھے ہیں
بولو کیا تم کھول سکو گی

صغیر صفی

تفریق

تفریق

بڑے لوگوں کے اِن اونچے چمکتے دِلنشیں بنگلوں کی
بنیادوں میں کس کا خون شامل ہے
بڑے لوگوں کی گاڑی میں
صفی پٹرول کے بدلے، یہ کس کا خون جلتا ہے
یہ مِلّیں، کارخانے کتنوں کے ارماں
دھوئیں کے سنگ اڑاتے ہیں

سادگی

سادگی

ہم تُجھ کو بھلانے نِکلے تھے
اِس کوشش میں ہم نے اپنی
جس شہر میں تیرا ڈیرہ تھا
اُس شہر کا رَستہ چھوڑ دیا
جو تیری باتیں کرتا تھا
مُنہ، ہر اُس شخص سے موڑ لیا

یہاں بھی اک دن بہار ہو گی

(مقبوضہ کشمیر میں جاری جنگِ آزادی کے پس منظر میں لِکھی گئی نظم)

یہاں بھی اِک دن بہار ہو گی

یہ رات دن تم جو جبر موسم میں صبر کے گُل کِھلا رہے ہو
یہ جو صلیبوں کے سائے میں تم وطن کے نغمے سُنا رہے ہو
یہ اپنے شانوں پہ، اپنے پیاروں کے لاشے تم جو اُٹھا رہے ہو
کہ بِیج بو کے لہُو کے لوگو! رہائی کے گُل کِھلا رہے ہو
وطن کی مٹّی میں پُھول اِک دن محبتوں کے کِھلیں گے آخر
جُدا جُدا گر ہیں آج ہم تو ضرور کل کو مِلیں گے آخر

کئی اور دکھ ہیں مجھ کو

کئی اور دکھ ہیں مجھ کو

یہ جو چاہتوں کے سپنے
مری آنکھ میں مَرے ہیں
کئی نقش اُن کے آخر
مرے دِل میں رہ گئے ہیں
یہ کدُورتوں کے گھاؤ
مَیں کہاں تلک بھلاؤں

Tuesday 21 August 2012

اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے کوئی گیت سنیں تو لکھیں بھی

اندر سے کوئی گھنگھرو چھَنکے کوئی گیت سنیں تو لِکھیں بھی
ہم دھیان کی آگ میں تپتے ہیں کچھ اور تپیں تو لِکھیں بھی
یہ لوگ بے چارے کیا جانیں کیوں ہم نے حرف کا جوگ لیا
اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی، اس آگ جلیں تو لِکھیں بھی
دن رات ہوئے ہم وقفِ رفُو، اب کیا محفل، کیا فکرِ سخن
یہ ہات رُکیں تو سوچیں بھی، یہ زخم سِلیں تو لِکھیں بھی

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دَشت طلب کی دھول میاں

دیکھ ہمارے ماتھے پر، یہ دَشتِ طلب کی دُھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بُھول میاں
اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہو گا ترا اصُول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمُول میاں
یُونہی تو نہیں دَشت میں پہنچے، یُونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پُھول میاں

Saturday 18 August 2012

ذکر جہلم کا ہے بات ہے دینے کی

ذِکر جہلم کا ہے، بات ہے دِینے کی
چاند پُکھراج کا، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اُدھڑی ہوئی چاندی
رات کوشش میں ہے چاند کو سِینے کی
کوئی ایسا گِرا ہے نظر سے، کہ بس
ہم نے صُورت نہ دیکھی پِھر آئینے کی

Friday 17 August 2012

رات کا پچھلا پہر ہے اور میں

رات کا پچھلا پہر ہے اور میں
جاگتا سوتا نگر ہے اور میں
میں کہ سنگ آسا ہُوا ہوں دوستو
کیسے جادو کا اثر ہے اور میں
حکم ہے جرعہ کشی کا دیکھئے
زہر لب پر قدح بھر ہے اور میں

کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو

کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو
ہم تو پتھر ہیں، سفر میں اک عدد شِیشہ بھی ہو
بے تعلق شخص سے بہتر ہے وہ ساتھی مرا
غم میں جو ہنستا بھی ہو، تسکِیں مگر دیتا بھی ہو
یاد کچھ آتا نہیں، ہم نے اسے دیکھا کہاں؟
کیا خبر وہ خود بھی ہو، تصویر کا چہرہ بھی ہو

آنکھوں سے رنگ پھول سے خوشبو جدا رہے

آنکھوں سے رنگ، پھول سے خوشبو جدا رہے
روٹھی رہے حیات، وہ جب تک خفا رہے
اتنے قریب آ کہ نہ کچھ فاصلہ رہے
سانسوں کے ماسوا نہ کوئی سِلسلہ رہے
دستک کوئی نہ در پہ ہو لیکن لگن رہے
ہر لمحہ انتظار یہ کسی کا لگا رہے

Thursday 16 August 2012

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے
اُس شخص کو اپنا دیکھا ہے

وہ شخص کہ جِس کی خاطر ہم
اِس دیس پِھریں، اُس دیس پِھریں

ہاں اے دل دیوانا

ہاں اے دل دیوانہ۔۔

وہ آج کی محفل میں
ہم کو بھی نہ پہچانا
کیا سوچ لیا دل میں
کیوں ہو گیا بیگانہ
ہاں اے دل دیوانہ

بنجارن کا بوجھ

بنجارن کا بوجھ

پہلی بار بنجارن آئی
خوشیوں کی لیے کھاری
ہونٹ عنابی، باتیں شرابی
کھاری اس کی بھاری
ایک خوشی تو میں نہیں دوں گی
لیتی ہو لو ساری

دروازہ کھلا رکھنا

دروازہ کُھلا رکھنا 

دل درد کی شِدّت سے خُون گشتہ و سِی پارہ
اِس شہر میں پِھرتا ہے، اِک وحشی و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے، جوگی ہے کہ بنجارہ
دروازہ کُھلا رکھنا

سنتے ہیں پِھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو

سُنتے ہیں پِھر چُھپ چُھپ اُن کے گھر میں آتے جاتے ہو
انشاؔ صاحب! ناحق جی کو وحشت میں اُلجھاتے ہو
دل کی بات چُھپانی مُشکل، لیکن خُوب چُھپاتے ہو
بَن میں دانا، شہر کے اندر، دِیوانے کہلاتے ہو
بے کَل بے کَل رہتے ہو، پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چُرا کر دیکھ بھی لیتے ہو، بَھولے بھی بن جاتے ہو

لوگ ہلال شام سے بڑھ کر پل میں ماہ تمام ہوئے

لوگ ہلالِ شام سے بڑھ کر، پَل میں ماہِ تمام ہوئے
ہم ہر بُرج میں گَھٹتے گَھٹتے صُبح تلک گُمنام ہوئے
اُن لوگوں کی بات کرو جو عشق میں خُوش انجام ہوئے
نَجد میں قیس، یہاں پر انشؔا، خوار ہوئے، ناکام ہوئے
کِس کا چمکتا چہرہ لائیں کِس سُورج سے مانگیں دُھوپ
گَھور اندھیرا چھا جاتا ہے، خلوتِ دل میں شام ہوئے

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پرِیشاں ہوتا ہے

دل کِس کے تصوّر میں جانے راتوں کو پرِیشاں ہوتا ہے
یہ حُسنِ طلب کی بات نہیں، ہوتا ہے مِری جاں! ہوتا ہے
ہم تیری سِکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اِک خار کھٹکتا رہتا ہے، سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے
پِھر اُن کی گلی میں پہنچے گا، پھر سِہو کا سجدہ کر لے گا
اِس دل پہ بھروسا کون کرے، ہر روز مُسلماں ہوتا ہے

پیت کرنا تو ہم سے نبھانا سجن

پِیت کرنا تو ہم سے نِبھانا سجن، ہم نے پہلے ہی دن تھا کہا نا سجن
تم ہی مجبُور ہو، ہم ہی مُختار ہیں، خیر مانا سجن، یہ بھی مانا سجن
اب جو ہونے تھے قِصّے سبھی ہو چکے، تم ہمیں کھو چکے ہم تمہیں کھو چکے
آگے دل کی نہ باتوں میں آنا سجن، کہ یہ دل ہے سدا کا دوانا سجن
یہ بھی سچ ہے نہ کچھ بات جی کی بنی، سُونی راتوں میں دیکھا کیے چاندنی
پر یہ سودا ہے ہم کو پُرانا سجن، اور جینے کا اپنے بہانا سجن

Tuesday 14 August 2012

رنگ وطن از ساغر صدیقی


رنگِ وطن از ساغر صدیقی

********************

چمن چمن، کلی کلی، روِش روِش پُکار دو
وطن کو سرفروش دو، وطن کو جاں نثار دو
جو اپنے غیضِ بے کراں سے کوہسارِ پیس دیں
جو آسماں کو چِیر دیں، ہمیں وہ شہسوار دو
یہی ہے عظمتوں کا اِک اصُولِ جاوداں حضُور
امیر کو شجاعتیں، غریب کو وقار دو

گلدستۂ نعت از ساغر صدیقی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
گُلدستۂ نعت از ساغر صدیقی

*****************

جس طرف چشمِ محمدؐ کے اِشارے ہو گئے
جتنے ذرّے سامنے آئے، ستارے ہو گئے
جب کبھی عِشق محمدؐ کی عنایت ہو گئی
میرے آنسو کوثر و زمزم کے دھارے ہو گئے
موجۂ طوفاں میں جب نام محمدؐ لے لیا
ڈُوبتی کشتی کے تنکے ہی سہارے ہو گئے

Monday 13 August 2012

سر حسن کلام تھا تیرا نام بھی میرا نام بھی

سَرِ حُسنِ کلام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی شہر شہر میں عام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی خاک پر بھی لِکھیں تو مَوجِ ہَوا مِٹا کے اُلجھ پڑے
کبھی زینتِ دَر و بام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
بَھرے دن کی زرد تمازتوں میں بُجھے بُجھے سے رہے، مگر
رُخِ شب پہ ماہِ تمام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی

کچھ لوگ بھی وہموں میں گرِفتار بہت ہیں

کچھ لوگ بھی وہموں میں گرِفتار بہت ہیں
کچھ شہر کی گلیاں بھی پُراسرار بہت ہیں
ہے کون، اُترتا ہے وہاں جِس کے لیے چاند
کہنے کو تو چہرے پسِ دیوار بہت ہیں
ہونٹوں پہ سُلگتے ہوئے اِنکار پہ مَت جا
پلکوں سے پَرے بِھیگتے اقرار بہت ہیں

خواہشوں کے زہر میں اخلاص کا رس گھول کر

خواہشوں کے زہر میں اخلاص کا رس گھول کر
وہ تو پتّھر ہو گیا، دو چار دن ہنس بول کر
دِل ہجومِ غم کی زِد میں تھا، سنبھلتا کب تلک
اِک پرندہ آندھیوں میں رہ گیا پَر تول کر
اپنے ہونٹوں پرسجا لے قیمتی ہِیروں سے لفظ
اپنی صُورت کی طرح باتیں بھی تو انمول کر

یوں تو ہے پرستار زمانہ تیرا کب سے

یُوں تو ہے پرستار زمانہ تیرا کب سے
پُوجا ہے مگر ہم نے تُجھے اور ہی ڈَھب سے
اُس آنکھ نے بخشی ہے وہ تاثیر کہ اب تک
مِلتی ہے ہمیں گردِشِ دَوراں بھی ادب سے
یاروں کی نگاہوں میں بصیرت نہ تھی ورنہ
پُھوٹی ہے کئی بار سحر، دامنِ شب سے

میں بھی اڑوں گا ابر کے شانوں پہ آج سے

مَیں بھی اُڑوں گا ابر کے شانوں پہ آج سے
تنگ آ گیا ہُوں تشنہ زمیں کے مِزاج سے
مَیں نے سیاہ لفظ  لِکھے دِل کی لَوح پر
چمکے گا درد اور بھی اِس اِمتزاج سے
انساں کی عافیت کے مسائل نہ چھیڑیئے
دُنیا اُلجھ رہی ہے ابھی تخت و تاج سے

بہت ہوا کہ غم دو جہاں کی زد میں نہیں

بہت ہُوا کہ غمِ دو جہاں کی زَد میں نہیں
کہ میں اسیر زمان و مکاں کی حَد میں نہیں
میرے ملاپ کی خواہش ہے گر تو چاند نہ بن
کہ آسماں کی بلندی تو میرے قَد میں نہیں
سفیرِ موسمِ گُل ہے صبا کا پرچم ہے
وہ برگِ تَر جو ابھی تک خزاں کی زَد میں نہیں

پِھر وہی میں ہوں وہی درد کا صحرا یارو

پِھر وہی مَیں ہُوں، وہی درد کا صحرا یارو
تم سے بِچھڑا ہُوں تو دُکھ پائے ہیں کیا کیا یارو
پیاس اتنی ہے کہ آنکھوں میں بیاباں چمکیں
دُھوپ ایسی ہے کہ جیسے کوئی دریا یارو
یاد کرتی ہیں تمہیں آبلہ پائی کی رُتیں
کس بیاباں میں ہو بولو! مِرے تنہا یارو

ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اس کو

ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اس کو
تمام عُمر لگی جُھوٹ بولتے اس کو
جِسے کَشِید کیا تھا، خُمارِ خُوشبو سے
مثالِ رنگ ہواؤں میں گھولتے اس کو
وہ خواب میں ہی اُترتا شُعاعِ صبح کے ساتھ
ہم اپنے آپ ہی پلکوں پہ تولتے اس کو

ڈر شب کا وہاں کیوں نہ بھلا تیز بہت ہو

ڈر شب کا وہاں کیوں نہ بَھلا تیز بہت ہو
جِس گھر میں دِیا ایک، ہَوا تیز بہت ہو
صدیوں کے مُسافر بھی پَلٹ آئیں گے اِک روز
یہ شرط، کہ رفتارِ صَدا تیز بہت ہو
ہاتھ اُس نے میرے خُون میں تَر کر لیے آخر
خواہش تھی اُسے، رنگِ حِنا تیز بہت ہو