کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
جانے ہم خُود میں کہ ناخُود میں رہا کرتے ہیں
اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی
جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں
جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے
یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں
جانے اس کوچۂ حالت کا ہے کیا حال، کہ ہم
اپنے حجرے سے بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں
میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں یہ ہے میرا سوال
اور سب لوگ جو کرتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟
اب یہ ہے حالتِ احوال کہ اِک یاد سے ہم
شام ہوتی ہے تو بس رُوٹھ لیا کرتے ہیں
جس کو برباد کیا اس کے فداکاروں نے
ہم اب اس شہر کی روداد سنا کرتے ہیں
شام ہو یا کہ سحر اب خس و خاشاک کو ہم
نذرِ پُر مائیگئ جیبِ صبا کرتے ہیں
جن کو مفتی سے کدورت ہو نہ ساقی سے گِلہ
وہی خوش وقت مری جان رہا کرتے ہیں
ایک پہنائے عبث ہے جسے عالم کہئے
ہو کوئی اس کا خُدا ہم تو دُعا کرتے ہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment