پا بہ زنجیر کرے، طوق بنے، دار بنے
حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے
مُسکراتا ہے اُسے دیکھ کے ہر اہلِ ہوس
جب کوئی لفظ گریباں کا مرے، تار بنے
تھا نہ یاروں پہ کچھ ایسا بھی بھروسا لیکن
کیا توقّع ہو بھلا لُطفِ مناظر سے کہ آنکھ
کربِ آشوب سے ہی دیدۂ بیدار بنے
ہاں مرے جُرم کی کچھ اور بھی تشہیر کرو
کیا خبر، جشن مری موت کا تہوار بنے
کیا کہوں جس کے سبب لائقِ تعزیز ہوں مَیں
حرفِ بے نام وہی چشمۂ انوار بنے
ہم کہ محسود ہیں اِس فکر کی ضَو سے ماجدؔ
جانے کب نُور یہی اپنے لئے نار بنے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment