Sunday, 18 November 2012

یقین جس کا ہے وہ بات بھی گماں ہی لگے

  یقین جس کا ہے وہ بات بھی گماں ہی لگے

وہ مہربان ہے لیکن بلائے جاں ہی لگے

ہم اتنی مرتبہ گزرے ہیں آزمائش سے

وہ سیدھی بات بھی پوچھے تو امتحاں ہی لگے

ترس گئے ہیں کہ کھل کر کسی سے بات کریں

ہر آشنا ہمیں غیروں کا راز داں ہی لگے

ہو جیسے کیفیت دل کا آئینہ منظر

وہ ہمسفر ہو تو صحرا بھی گلستاں ہی لگے

میں جیسے مرکزی کردار ہوں کہانی کا

کوئی فسانہ ہو وہ میری داستاں ہی لگے

تِرے خیال سے نسبت کا اب یہ عالم ہے

کہیں جھکاؤں جبیں تیرا آستاں ہی لگے

مِرے وطن کے سبھی لوگ چاند تارے ہیں

زمین اس کی مجھے جیسے آسماں ہی لگے

سعید باد سماعت نوائے مطرب ہے

خوشی کا گیت بھی اب نغمۂ فغاں ہی لگے


جے پی سعید

No comments:

Post a Comment