Sunday 18 November 2012

جاگیں گے کسی روز تو اس خواب طرب سے

جاگیں گے کسی روز تو اس خوابِ طرب سے
ہم پُھول ہی چُنتے رہے باغیچۂ شب سے
پھر ایک سفر اور وہی حرفِ رفاقت
سمجھے تھے گزر آئے ہیں ہم تیری طلب سے
خُوش دل ہے اگر کوئی تو کیا اس کا یہاں کام
یہ بارگہِ غم ہے، قدم رکھو ادب سے
اب موسمِ جاں سے بھی یقیں اُٹھنے لگا ہے
دیکھا ہے تُجھے رنگ بدلتے ہوئے جب سے
یاں بھی وہی بے گانہ روی، اپنے خُدا سی
مانگی جو کبھی کوئی دُعا شہر کے رب سے
چونکی ہوں تو دیکھا کہ وہ ہمراہ نہیں ہے
اُلجھن میں ہوں کس بات پہ، کس موڑ پہ، کب سے
یہ درخورِ ہنگامہ تو پہلے بھی کہاں تھی
ہول آئے مگر آج تو ویرانئ شب سے
کچھ، دوست بھی مصروف زیادہ ہوئے اور کچھ
ہم دور ہیں، افسردگئ دل کے سبب سے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment