وہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اُتر گئے
ہم اِک اُسی کی جستجو لئے، نگر نگر گئے
خیال قُرب اُسی کا سر پہ ابر سا جُھکا رہا
میانِ دشتِ روزگار، ہم جِدھر جِدھر گئے
تھیں اُس کے مُڑ کے دیکھنے میں بھی عجب مسافتیں
دُھلے فلک پہ جس طرح شبِ سیہ کی چشمکیں
پسِ وصال ہم بھی کچھ اِسی طرح نکھر گئے
اُسی کی دِید سے ہمیں تھے حوصلے اُڑان کے
گیا جو وہ تو جانئے، کہ اپنے بال و پر گئے
وہ جن کے چوکھٹوں میں عکس تھے مرے حبیب کے
وہ ساعتیں کہاں گئیں، وہ روز و شب کدھر گئے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment