Wednesday 30 November 2022

وہ آگہی کے صدق کے صفا کے روگ کیا ہوئے

 وہ آگہی کے، صدق کے، صفا کے روگ کیا ہوئے

کدھر گئے ستارہ جو اور ان کے جوگ کیا ہوئے

جو عکس تھے حیات کا، جو نقش تھے ثبات کا

وہ زخم کیسے بھر گئے، ہمارے سوگ کیا ہوئے

کہاں گئیں وہ راحتیں،۔ وہ دل نواز چاہتیں

وہ لوگ کیسے مر گئے، بتا بجوگ کیا ہوئے؟

قریب سے بھی جو پہچان میں نہیں آیا

 قریب سے بھی جو پہچان میں نہیں آیا

وہ کون تھا جو مِرے دھیان میں نہیں آیا

یہ پھول دیکھ کے تم تو سمجھ گئے ہو گے

میں جنگ کے لیے میدان میں نہیں آیا

تھے جس کو یاد بہاروں کے لوک گیت سبھی

وہ پھول کانچ کے گلدان میں نہیں آیا

دل منتشر ہیں یوں تیری محفل کے آس پاس

 دل منتشر ہیں یوں تیری محفل کے آس پاس

تارے ہوں جس طرح مہ کامل کے آس پاس

اللہ! کیا ہوا مِری کشتی کدھر گئی

دیکھا تو تھا ابھی اسے ساحل کے آس پاس

آلودۂ غبار ہے شاید کہ روحِ قیس

پھرتا ہے اک بگولا سا محمل کے آس پاس

سنگ طفلاں کا ہدف جسم ہمارا نکلا

 سنگِ طِفلاں کا ہدف جسم ہمارا نکلا

ہم تو جس شہر گئے شہر تمہارا نکلا

کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی

چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا

جانے مدت پہ تِری یاد کدھر سے آئی

راکھ کے ڈھیر میں پوشیدہ شرارا نکلا

پھولوں کی جہاں باڑ تھی دیوار سے پہلے

 پھولوں کی جہاں باڑ تھی دیوار سے پہلے

ملنے میں سہولت تھی وہاں یار سے پہلے

چھوڑو بھی یہ لفظوں کے چناؤ کا تکلف

تمہید ضروری نہیں انکار سے پہلے

ممکِن ہی نہیں کوئی بدل جائے اچانک

آثار بتا دیتے ہیں اظہار سے پہلے

گناہ کرنے کی حاجت ہی کہاں تھی

 ناقابلِ تلافی


گناہ کرنے کی حاجت ہی

کہاں تھی

کہ میرا جرم تو

دنیا میں اک عورت

کا پیکر لے کے آنا تھا

کتنے لفظ ہیں کتنے لوگ

 کتنے لفظ ہیں کتنے لوگ

کیسی دنیا،۔ کیسا روگ 

من کے سُونے آنگن جھانکو

چپ کی چپ ہے ایسا جوگ

دنیا دیکھو، چہرے ملتے

ایک دوجے کے قریں بیٹھ کے رو لیتے ہیں

 ایک دوجے کے قریں بیٹھ کے رو لیتے ہیں

جہاں کہتا ہے وہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں

میں بہت جلد زمانے سے بچھڑ جاؤں گا

آئیے مجھ کو کہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں

آج کا رونا کبھی کل پہ نہیں ٹالا ہے

جہاں کا غم ہو وہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں

لگائی کس نے سینوں میں اگن ہے

 لگائی کس نے سینوں میں اگن ہے

سلگ اٹھا مِرا پیارا وطن ہے

جگاؤ مت  ابھی منکر نکیرو

چڑھی لمبی مسافت کی تھکن ہے 

نظر چوکی کہ ڈس لیتی ہے بیرن

سیاست کی زباں ناگن کا پھن ہے

سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہو گا

 سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہو گا 

موم کے شہر سے سورج کا گزر کب ہو گا 

خواب کاغذ کے سفینے ہیں بچائیں کیسے 

ختم اس آگ کے دریا کا سفر کب ہو گا 

جس کا نقشہ ہے مِرے ذہن میں اک مدت سے 

گھر وہ تعمیر سے پہلے ہی کھنڈر کب ہو گا 

Tuesday 29 November 2022

دکھ کی سرپرستی میں اور نیازمندی میں

 دکھ کی سر پرستی میں اور نیازمندی میں

جھک رہا تھا میرا سر اک طرف بلندی میں

ڈھونڈنے سے کیا ملتے نقص آپ لوگوں کو

بھولی بھالی صورت میں، سیدھی سادی بندی میں

میں تو شاعرہ ہوں آپ حسن سے وفا کر لیں

آپ کو ملے گا کیا گونگی، بہری، اندھی میں

طنز کے تیر ہیں ہنسی کی طرف

 طنز کے تیر ہیں ہنسی کی طرف

آگ بڑھنے لگی خوشی کی طرف

تیرِ افسردگی ہنسی کی طرف

رنج بڑھنے لگے خوشی کی طرف

سب کی نظریں ہیں دلکشی کی طرف

کون پلٹے گا سادگی کی طرف

ملے گا اس کا مجھے کیا اٹھا کے لایا ہوں

 ملے گا اس کا مجھے کیا، اٹھا کے لایا ہوں

پرانے وقت کا سِکہ اٹھا کے لایا ہوں

زمیں کی تشنگی دیکھی نہیں گئی مجھ سے

میں اپنی اوک میں دریا اٹھا کے لایا ہوں

شبِ سیاہ میں کچھ تو مجھے سہولت ہو

کسی کی یاد کا تارا اٹھا کے لایا ہوں

ناہوت مفلسی کا تماشا ہے اور بے بسی کی نمائش

 ناہوت


مفلسی کا تماشا ہے

اور بے بسی کی نمائش کے ہر اک ٹکٹ پر لکھا ہے

کہ اس زندگی میں کوئی اک جھمیلہ نہیں

سینکڑوں ہیں

یہاں کسمساتے ہوئے جسم 

طناب خیمۂ جاں چشم خواب کھینچتے ہیں

 طنابِ خیمۂ جاں چشمِ خواب کھینچتے ہیں

جو جا چکے ہیں مِرے دستیاب کھینچتے ہیں

مِرے وجود کو جونکیں لگا تسلی کی

یہ وسوسے تو رگوں سے شباب کھینچتے ہیں

انہیں اداسی کی جادو گری کا علم نہیں

یہ کم نظر ہیں تِرا سدِ باب کھینچتے ہیں

حصہ بنا کے پیار کو اپنے شعار کا

حصہ بنا کے پیار کو اپنے شِعار کا

ہر دم خیال کیجیے سب کے وقار کا

دولت کے بل پہ آپ نہ اِترائیے جناب

پھر خوب حَظ اٹھائیں گے اس کے خمار کا

تپ چڑھ گئی ہے آپ کو، تپنے میں ہے مزہ

پر کچھ علاج کیجیۓ اپنے بخار کا

رہے جو شام و سحر ان کے آستاں کو سلام

رہے جو شام و سحر اُن کے آستاں کو سلام

یہی ہے خُلد، اب آرامِ قلب و جاں کو سلام

دُعائیں دیتی ہوئی بے کسی آگے بڑھی

کیا جو برق نے جُھک جُھک کے آشیاں کو سلام

پرائے تنکے تھے آندھی کا اک بہانہ تھا

گھر اپنا دیکھ لیا، عُمرِ رائیگاں کو سلام

جاگتی آنکھوں کا سپنا بے کار نہ ہو

جاگتی آنکھوں کا سپنا بے کار نہ ہو

سونے والے، دیکھ ابھی بیدار نہ ہو

دھوپ ہوا سے ہمسائے محروم رہیں

اتنی بھی اونچی اپنی دیوار نہ ہو

میرا دکھ بانٹے گا میرا سارا گاؤں

غمگین اس بارے میں تو بیکار نہ ہو

اب وہ اثر نہیں ہے کسی کی پکار میں

اب وہ اثر نہیں ہے کِسی کی پُکار میں

اِیماں کا آفتاب ہے گویا اُتار میں

شِدّت پسند ہو گئے بے زار آدمی

ہیں مُبتلا ہزاروں ہوس کے بُخار میں

رفتارِ اسپِ عُمر رواں سست پڑ گئی

گرمی کہاں سے لاؤ گے اُترے خُمار میں

Monday 28 November 2022

جہاں بتایا گیا تھا خدا وہاں بھی نہیں

 جہاں بتایا گیا تھا، خدا وہاں بھی نہیں

"ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں"

تیرے بغیر تو کچھ بھی نہیں قبول مجھے

یہ زندگی بھی نہیں، اور یہ جہاں بھی نہیں

فلک سے رب نے کہا تھا؛ سنبھل کے چل موسٰیؑ

دعا جو تیرے لیے کرتی اب وہ ماں بھی نہیں

محبت اک مسلسل تجربہ ہے

 محبت اک مسلسل تجربہ ہے

راستہ ہے

اسے منزل نہیں سمجھو

اسے کھوجو

اسے سمجھو

اسے اندر اتارو

کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو

 موت


کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو

مطلب کا میرے جیسے کوئی قافیا نہ ہو

گلدان میں سجا کے ہیں ہم لوگ کتنے خوش

وہ شاخ ایک پھول بھی جس پر نیا نہ ہو

ہر لمحہ وقت کا ہے بس اک غنچۂ بخیل

مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو

محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے

 محبت


محبت کسی سے بھی ہو سکتی ہے

بیساکھیوں پہ چلنے والے کی مسکراہٹ سے

کٹے ہوئے بازوؤں والے کی باتوں سے

نابینا لڑکی کی آواز سے

کالی رنگت والے کی گائیکی کے انداز سے

مسلسل وار کرنے پر بھی ذرہ بھر نہیں ٹوٹا

 مسلسل وار کرنے پر بھی ذرہ بھر نہیں ٹوٹا 

میں پتھر ہو گیا لیکن تِرا خنجر نہیں ٹوٹا 

تِرے ٹکرے مِری کھڑکی کے شیشوں سے زیادہ ہیں 

نصیب اچھا ہے میرا تو مِرے اندر نہیں ٹوٹا 

مجھے برباد کرنے تک ہی اس کے آستاں ٹوٹے 

مرا دل ٹوٹنے کے بعد اُس کا گھر نہیں ٹوٹا 

طلسمِ یار میں جب بھی کمی آئی، نمی آئی 

تم نے دیکھی ہی نہیں سوختہ جانی میری

 تم نے دیکھی ہی نہیں سوختہ جانی میری

یونہی بدنام ہے آشفتہ بیانی میری

نہ کوئی نقش ہے باقی نہ نشانی میری

اس نے پانی پہ لکھی ہو گی کہانی میری

شوقِ آغازِ سفر پر ہی اسے روکا تھا

لیکن اس دل نے کبھی ایک نہ مانی میری

دل یہ کہتا ہے کہ اب سر ہی کو پھوڑا جائے

 دل یہ کہتا ہے کہ اب سر ہی کو پھوڑا جائے

یا سکوتِ لب خاموش کو توڑا جائے

کر دئیے جائیں مِرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے

یا مجھے ریشۂ امید سے جوڑا جائے

اب مجھے رات کی تنہائی سے خوف آتا ہے

رات آئے تو نہ تنہا مجھے چھوڑا جائے

نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے

 نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے

میں وہ پتھر ہوں کہ روؤں تو نہ رویا جائے

اجنبی ہے تِرے خوشرنگ بدن کی خوشبو

اک ذرا لمس وفا تجھ میں سمویا جائے

شب کے صحرا نے عجب پیاس لکھی ہے مجھ میں

مجھ کو خورشید کے شعلوں میں ڈبویا جائے

طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے

 طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے

لے گئی تیز ہوا غم کی اڑا کر چہرے

جن کے ہونٹوں پہ طرب خیز ہنسی ہوتی ہے

وہ بھی روتے ہیں کتابوں میں چھپا کر چہرے

کرب کی زرد تکونوں میں کئی ترچھے خطوط

کس قدر خوش تھا میں کاغذ پہ بنا کر چہرے

اسی لیے کوئی جادو اثر نہِیں کرتا

 اسی لیے کوئی جادو اثر نہِیں کرتا

گمان دل میں مِرے دوست گھر نہِیں کرتا

جھکا ہی رہتا ہے گشتی پہ اپنے شام و سحر

پِسر کو بولتا ہوں کام کر، نہِیں کرتا

فقیر جان کے محبوب پیار بِھیک میں دے

میں اپنے آپ کو یوں دربدر نہِیں کرتا

Sunday 27 November 2022

مہرباں قسمت ہوئی تو دوست کم

 مہرباں قسمت ہوئی تو دوست کم

کو بہ کو شہرت ہوئی تو دوست کم

جب تلک ہوں متفق سب ٹھیک ہے

تھوڑی سی حجت ہوئی تو دوست کم

عہدِ اعزاز کی رخصت کے ساتھ

افسری رخصت ہوئی تو دوست کم

ڈھونڈتی چہرہ کسی دن کھڑکیاں رہ جائیں گی

 ڈھونڈتی چہرہ کسی دن کھڑکیاں رہ جائیں گی

اور پسِ پردہ تمہاری ہچکیاں رہ جائیں گی

موت اپنے ساتھ لے جائے گی انگلی تھام کر

چاہنے والوں کی پیچھے سسکیاں رہ جائیں گی

اِس بہانے ہی سہی میں یاد آؤں گا تمہیں

فیس بک کی وال پر جو سلفیاں رہ جائیں گی

مری حیات یہ ہے اور یہ تمہاری قضا

 مرحوم اور محروم


مِری حیات یہ ہے اور یہ تمہاری قضا

زیادہ کس سے کہوں اور کس کو کم، بولو

تم اہلِ خانہ رہے،۔ اور میں یتیم ہوا

تمہارا درد بڑا ہے یا میرا غم، بولو؟

تمہارا دور تھا گھر میں بہار ہنستی تھی

ابھی تو در پہ فقط رنج و غم کی دستک ہے

جو تنگ آ کے پرانی ڈگر کو چھوڑ گئے

 جو تنگ آ کے پرانی ڈگر کو چھوڑ گئے

نشاں کے طور پہ گرد سفر کو چھوڑ گئے

ذرا خبر نہ ہوئی قافلے کے لوگوں کو

وہ راستے میں کسی بے خبر کو چھوڑ گئے

تِرے فراق میں ویران ہو گئیں آنکھیں

جو چار اشک تھے وہ چشمِ تر کو چھوڑ گئے

تنہا کوئی بھی ہو سکتا ہے

 تنہا


تنہا کوئی بھی ہو سکتا ہے

سات لوگوں کے خاندان میں سب سے خوش رہنے والا

دوستوں میں سب سے زیادہ بولنے والا

شہر کے بڑے بازار کے

کرائے کے اس فلیٹ میں رہنے والا

دست شب دل تک آ گیا اب کے

دستِ شبِ دل تک آ گیا اب کے

لو گیا، آخری دِیا، اب کے

طاق در طاق رقص کرتی ہے

بھیس بدلے ہوئے ہوا، اب کے

منہمک گُل نے جی ملُول کیۓ

مضمحل ہو گئی فضا، اب کے

حرام زندگی کا نوحہ ہم عجیب لوگ تھے

 حرام زندگی کا نوحہ


ہم عجیب لوگ تھے

بڑے عجیب لوگ

ہم وہ لوگ تھے جنہیں

إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ کہہ کر خبردار کیا گیا

ہماری ماؤں نے ہمیں اس وقت جنا

کسی کو آزمانے میں زرا سی دیر لگتی ہے

ذرا سی دیر لگتی ہے


کسی کو آزمانے میں

زرا سی دیر لگتی ہے

جنہیں ہم ہیں سمجھتے کہ

ہیں سنگ یہ زندگی بھر کے

انہیں بس چھوٹ جانے میں

ذرا سی دیر لگتی ہے

کچھ اس لیے مجھے لٹنے کا ڈر زیادہ ہے

کچھ اس لیے مجھے لُٹنے کا ڈر زیادہ ہے

ذرا سی ہے مِری دیوار، در زیادہ ہے

یہ راستہ تو مِرا ساتھ دے نہیں سکتا

میں جانتا ہوں کہ میرا سفر زیادہ ہے

عجب علاج کِیا ہے مِرے مسیحا نے

مِرے مرض سے دوا کا اثر زیادہ ہے

پنڈ کے بوہڑ تھلے ہم عشق لڑایا کرتے تھے

اردو پنجابی مکس زعفرانی غزل


پنڈ کے بوہڑ تھلے ہم عشق لڑایا کرتے تھے

وہ پانڈے مانجا کرتی تھی ہم مج نہوایا کرتے تھے

وہ ہر کام میں اگے تھی ہم ہر کام میں پھاڈی تھے

وہ سبق مُکا کے بہہ جاتی تھی ہم پنسل گھڑیا کرتے تھے

جدوں میری بے بے اس کے گھر رشتہ لین گئی

وہ کالج جایا کرتی تھی ہم درس میں پڑھیا کرتے تھے

Saturday 26 November 2022

سات رنگوں میں وہی رنگ نمایاں ہو گا

 سات رنگوں میں وہی رنگ نمایاں ہو گا  

یعنی وہ نقشۂ ارژنگ نمایاں ہو گا 

آئینہ صاف کیا جائے وگرنہ اس میں 

عکس چھپ جائے گا اور زنگ نمایاں ہو گا 

سات سُر ایک ہی لے میں مجھے لانا ہوں گے 

تب کہیں جا کے یہ آہنگ نمایاں ہو گا 

اسے میں آنکھ بھر کر دیکھتا ہوں

 اسے میں آنکھ بھر کر دیکھتا ہوں

میں ایسے خواب اکثر دیکھتا ہوں

نظر آتا نہیں ہے جب کہیں وہ

تو پھر میں دل کے اندر دیکھتا ہوں

اسے ظاہر نہیں کرتا کسی پر

اسے خود سے چھپا کر دیکھتا ہوں

سنو اے دوست ہم اس شہر کو جلا نہ دیں

  سنو اے دوست! ہم اس شہر کو جلا نہ دیں

جو ہم کو کھا گیا ہے

جو میری اور تمہاری روح پر

آسیب بن کر چھا گیا ہے

یہاں دیواریں اُگتی ہیں

اسی باعث ہمارے گھر مکانوں میں بدلتے جا رہے ہیں

کوئی غمگیں کوئی خوش ہو کر صدا دیتا رہا

 کوئی غمگیں، کوئی خوش ہو کر صدا دیتا رہا

رات شہرِ دل💝 کا ہر منظر صدا دیتا رہا

سنگساری کی سزا ٹھہری تھی جن کے واسطے

ان کو پہلے ہی سے ہر پتھر صدا دیتا رہا

میرے کربِ تشنگی پر رات شیشے رو پڑے

خشک ہونٹوں کو مِرے ساغر صدا دیتا رہا

مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے

 مِری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے

وہ میرے سائے کو مجھ سے جدا دکھاتا ہے

بس ایک پل میں مٹا دیں گی سر پھری موجیں

گھروندے ریت کے ساحل پہ کیوں بناتا ہے

فضا میں کمرے کی پھیلی ہوئی ہے اک خوشبو

یہ کون آ کے کتابیں مِری سجاتا ہے

اک آس کا دیا تو دل میں جلاتے جاؤ

  اک آس کا دیا تو دل میں جلاتے جاؤ

کس موڑ پر ملو گے؟ یہ تو بتاتے جاؤ

اس در سے جا ملیں گے یہ جتنے راستے ہیں

کانٹے ہٹاتے جاؤ،۔ کلیاں بچھاتے جاؤ

پتھر میں بھی چھپا ہے نغمات کا خزانہ

یہ شرط ہے کہ اس تک تم گنگناتے جاؤ

کب تک باتیں کرتے جائیں در اور میں

 کب تک باتیں کرتے جائیں در اور میں

ہر آہٹ پر چونک اٹھتے ہیں گھر اور میں

دن بھر اک دُوجے سے لڑتے رہتے ہیں

رات کو تھک کر سو جاتے ہیں ڈر اور میں

گھر سے باہر بھی میری اک دنیا ہے

اور اس دنیا سے باہر ہیں گھر اور میں

خدا کے حکم جب سارے جہانوں میں پڑے ہوں گے

خدا کے حکم جب سارے جہانوں میں پڑے ہوں گے

تماشے سیف کیا کیا آسمانوں میں پڑے ہوں گے

مِرے جو خواب مغوی ہو گئے تھے پچھلی دنیا میں

کہیں محشر کے آسیبی مکانوں میں پڑے ہوں گے

کسی کی وہ گھنی زلفیں کہیں سایہ فگن ہوں گی

کسی کے خط ابھی تک ڈاک خانوں میں پڑے ہوں گے

نہ آگہی نا کسی طرح کی کوئی خوشی ہے

 نہ آگہی نا کسی طرح کی کوئی خوشی ہے

جناب ایسے ہی بس ہماری گزر رہی ہے

تمہارا ہونا ہی اصل میں ہم کو روشنی ہے

نہیں تو ہر سمت صرف اور صرف تیرگی ہے

یہ جس طرح کی گٹھن کا اب مجھ کو سامنا ہے

مجھے یہ لگتا ہے میرا آخر بھی خودکشی ہے

ہجر ہوں پورا ہجر ہوں عشق وصال کرے

 ہجر ہوں پورا ہجر ہوں عشق وصال کرے 

دل کی دھڑکن تال ہو جسم دھمال کرے 

دیکھوں اس کی چاندنی چاند سے بھی شفاف 

اور سنہری روشنی اپنا جمال کرے 

گندم جیسے رنگ پر کالی چادر تان 

گیتوں جیسی زندگی بے سر تال کرے 

Friday 25 November 2022

میں ہوں ایک مشرقی عورت

 مشرقی عورت

میں ہوں ایک مشرقی عورت

خدا کے نام پر ماں باپ کی لاج کی خاطر

ایک مرد نام کے نامرد سے بندھی

اپنی نارسائیوں کی بوجھل گٹھڑی اٹھائے

ہر شب تنہائی کے جلتے صحرا میں ننگے پاؤں چلتی ہوں

سرد موسم یہ کیا ہم کو سکھلا گئے

 سرد موسم یہ کیا ہم کو سکھلا گئے

ہم کو تنہائی دی، غم ہمیں بھا گئے

ہم یہ کس دور میں دوستو! آ گئے

ہم کو موسم خزاؤں کے بھی بھا گئے

درد دل میں سکوں ہم کو آنے لگا

بات خوشیوں کی تھی ہم تو گھبرا گئے

میں کیسے دیس میں پیدا ہوا ہوں

 میں کیسے دیس میں پیدا ہوا ہوں

میں ایسے دیس میں پیدا ہوا ہوں

جہاں ہر دوسرا ہی فلسفی ہے

نشانے پر ہمیشہ زندگی ہے

جہاں پر نکتہ چینی مشغلہ ہے

جہاں پر فتویٰ گھڑنا حادثہ ہے

قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے

 قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے 

سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے 

ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف 

دیکھیے تو اک حقیقت سوچیے تو راز ہے 

ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا 

چند سکوں کے لیے بچہ بڑا جانباز ہے

حیرتیں کیسی اگر ارمان بکنے لگ گئے

 حیرتیں کیسی، اگر ارمان بِکنے لگ گئے

کیسی بستی ہے، جہاں انسان بکنے لگ گئے

اس جگہ سے نسبتوں پہ فخر کرنا ہے مجھے

جس جگہ پر عدل کے ایوان بکنے لگ گئے

کس نے دنیا کو بنا ڈالا ہے بازارِ ہوس

دین بکنے لگ گیا، ایمان بکنے لگ گئے

راہی جاری ہے ابھی جنگ چلو ہم بھی چلیں

 راہی، جاری ہے ابھی جنگ، چلو ہم بھی چلیں

کیا خبر ہم ہی ہوں پا سنگ، چلو ہم بھی چلیں

سب روانہ ہیں تِرے سنگ، چلو ہم بھی چلیں

دھوپ ہو جائے گی گُل رنگ، چلو ہم بھی چلیں

بزمِ اغیار میں پہلے ہی سے ہنگامہ ہے

اور ہو جائیں گے کچھ دنگ، چلو ہم بھی چلیں

Thursday 24 November 2022

مضطرب ہیں سبھی تقدیر بدلنے کے لیے

 مُضطرب ہیں سبھی تقدیر بدلنے کے لیے

کوئی آمادہ ہو شعلوں پہ بھی چلنے کے لیے

آج کے دور میں جینا کوئی آسان نہیں

وقت ملتا ہے کہاں گِر کے سنبھلنے کے لیے

زندگی! ہم کو قضا سے تُو ڈراتی کیوں ہے

ہم تو ہر وقت ہی تیار ہیں چلنے کے لیے

اک طرح سے ہے یہ مٹی بھی یہ پتھر بھی غلاف

 اک طرح سے ہے یہ مٹی بھی یہ پتھر بھی غلاف

آنکھ بھر جائے تو لگتا ہے سمندر بھی غلاف

کیوں نہ تدبیر کروں اوڑھ کے سونے کی میں

تیرے نیچے بھی غلاف اور ہے اوپر بھی غلاف

💓خول کی سمت سفر اتنا کٹھن ہے پیارے

خول اگر کھولیں تو ہے خول کے اندر بھی غلاف

جاتے جاتے لب فریاد بھی لیتے جاتے

 جاتے جاتے لبِ فریاد بھی لیتے جاتے

یاد کیوں چھوڑ گئے یاد بھی لیتے جاتے

مجھے معلوم تھا مطلب کے ہی فنکار ہو تم

سو اس ہنر کی ذرا داد ہی لیتے جاتے

ہم شرافت میں تِرے حسن کے ناظر ہی رہے

ورنہ تھوڑا سا تو پرساد ہی لیتے جاتے

کیونکر نہ ہوں مکین پریشان دیکھ لو

کیونکر نہ ہوں مکین پریشان دیکھ لو

دل جیسا شہر ہو گیا ویران دیکھ لو

میرے لیے وہ نیلگوں آنکھیں ہی ٹھیک ہیں

اپنے لیے الگ کوئی زندان دیکھ لو

حالات ایک سے نہیں رہتے، یہ جھوٹ ہے

ہم آج بھی ہیں بے سر و سامان، دیکھ لو

دشت دل میں دور تک اب کوئی صدا نہیں

 دشتِ دل میں دور تک اب کوئی صدا نہیں

کوئی آرزو نہیں،۔ کوئی سلسلہ نہیں

آنکھ کے دیار سے غم کے ریگزار تک

تجھ کو ڈھونڈتے رہے، تُو مگر ملا نہیں

آپ کب غلط ہوئے؟ میں ہی بدگمان ہوں

آپ تو خدا ہوئے،۔ آپ سے گِلہ نہیں

رہ حیات کو آسان کچھ کیا جائے

 رہِ حیات کو آسان کچھ کیا جائے

چلو کہ جینے کا سامان کچھ کیا جائے

دکھائیں آئینہ تنقید کرنے والوں کو

ضروری ہے کہ پشیمان کچھ کیا جائے

فرشتہ بننے کی تلقین ابھی ہے بے معنی

ہر آدمی کو تو انسان کچھ کیا جائے

تمہارے نام سے بالکل جدا بناؤں گا

 تمہارے نام سے بالکل جدا بناؤں گا

نئی ردیف، نیا قافیہ بناؤں گا

ورق بھروں گا تِری داستان لکھتے ہوئے

اور اپنے واسطے اک حاشیہ بناؤں گا

تجھے تِرے ہی طریقے سے  میں سکھاؤں گا

گناہ کروں گا مگر حادثہ بناؤں گا

کبھی پوچھا نہ اے ساجن جو کیا تجھ پر گزرتی ہے

کبھی پوچھا نہ اے ساجن جو کیا تجھ پر گزرتی ہے

تیری فرقت سے اے پیارے نہ جیتی ہے نہ مرتی ہے

نہ شب کو نیند آتی ہے نہ دن کو چین ہے مجھ کو

جو مقراض محبت کی میرے دل کو کترتی ہے

جلانا خاک کر دینا تیری یہ بے نیازی ہے

میاں جانو نہ جانو تم مگر یہ ناز کرتی ہے

اسے چاہیں تو کیا ڈھونڈیں تو کیسے

اسے چاہیں تو آہیں

دل کی سب راہیں دھوئیں سے تیرہ و تاریک کر ڈالیں

نگاہیں یوں کراہیں

جیسے تا حد نظر اس کی شعاعیں مرگ آسا جال پھیلا دیں

ہر اک شب سانس کے تاروں کو الجھائے

سحر دم خواب گہ پر کسمپرسی سایہ سایہ اس طرح منڈلائے

وہ حوروں کی دنیا کی اک شاہزادی وہ پھولوں کی ملکہ

وہ حوروں کی دنیا کی اک شاہزادی، وہ پھولوں کی ملکہ، ستاروں کی رانی

وہ اک حُسنِ سادہ، وہ اک کیفِ رنگیں، وہ جاتا لڑکپن، وہ آتی جوانی

نہ آنکھوں میں‌ کاجل، نہ بالوں میں افشاں، نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ گالوں پہ لالی

ابھی اُس نے سیکھا نہ تھا دل لگانا، ابھی اُس کو آتی نہ تھی دل ستانی

وہ مخمور نظریں ہراساں ہراساں، وہ معصوم چہرہ چراغاں چراغاں

لبوں کا تبسم گُلستاں گُلستاں، وہ رنگین آنچل کہ ہے دھانی دھانی

Wednesday 23 November 2022

کاش تم دیکھ سکتے

 کاش تم دیکھ سکتے 

میرے دل میں اُگے اس درخت  کو

جس کی ایک جڑ چنبے کی 

دوسری پیلو کی

تیسری شاہ حسین کے مزار پر جھومتے بڑ کی 

اور چوتھی تمہاری محبت کی ہے

دیوار و در سے چاہے تو رشتہ بنا کے رکھ

 دیوار و در سے چاہے تو رشتہ بنا کے رکھ

لیکن بُرا نہ مانے تو؛ دستک بچا کے رکھ

تُو آندھیوں کے کھیل سے واقف نہیں ابھی

پلکوں کے طاق پر نہ تُو دِیپک جلا کے رکھ

خالق جو تُو نے اس کو بنایا ہے گُل بدن

پھر حاسدوں کے شر سے بھی اس کو بچا کے رکھ

تو مجھ کو خواب لگتا ہے کوئی مدت پرانا خواب

 تُو مجھ کو خواب لگتا ہے


تُو مجھ کو خواب لگتا ہے

کوئی مدت پرانا خواب

یادوں کی عنابی جھیل میں کنکر گراؤں تو

تِری باتیں، تِرا چہرہ تڑخ کر ٹوٹ جاتا ہے

میں ایسے بت بھلا کب تک سمیٹے سوچتا رہتا

الجھا اور مقسوم رہا ہے یاد کا پنچھی

 الجھا اور مقسوم رہا ہے یاد کا پنچھی

یوں کچھ دن مغموم رہا ہے یاد کا پنچھی

وصل کے لمحے داب کے پنجوں میں دکھ سے چُور

جنگل جنگل گھوم رہا ہے یاد کا پنچھی

وحشت بڑھنے پر اتنا بے چین ہوا ہے

ورنہ تو معصوم رہا ہے یاد کا پنچھی

دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں

 دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں

کس کس کو کھو چکا ہوں اور خود کو کھو رہا ہوں 

کھڑکی کھلی ہوئی ہے، بارش تُلی ہوئی ہے

آنسو اُمڈ رہے ہیں دامن بھگو رہا ہوں 

وہ جس کے ٹُوٹنے سے نیندیں اُڑی ہوئی ہیں

وہ خواب جوڑنے کو، بن بن کے سو رہا ہوں 

عاشقی میں خامشی ممکن ہے نا ممکن نہیں

 عاشقی میں خامشی ممکن ہے نا ممکن نہیں

کیا کروں مجھ سے تو ضبطِ التجا ممکن نہیں

طالبِ آزار عشق، اور حسن آسائش پسند

تُو بھی ہو میرا شریکِ مدعا ممکن نہیں

میں جو مٹ جاؤں تو بدلوں رنگ و بو کا پیرہن

عالم ایجاد میں میری فنا ممکن نہیں

محبت سے پہلے محبت کہاں تھی

 کسی میں مروت، مروت کہاں تھی

محبت سے پہلے محبت کہاں تھی

یہ تم پوچھو خود اپنی شرم و حیا سے

کہ قبل اس سے خوئے شرافت کہاں تھی

یہ زلفیں ہیں میری، شبستاں نہیں ہے

تجھے ان میں سونے کی عادت کہاں تھی

اسے پکارو جو ریگزاروں میں قافلے سے بچھڑ گیا ہے

 اسے پکارو

اسے پکارو، اسے پکارو

جو ریگزاروں میں قافلے سے بچھڑ گیا ہے

اسے بتاؤ

یہ ریت بچھڑے ہوؤں کی خاطر تو بھیڑیا ہے

اسے پکارو

گھونسلہ بھی گرا ہے پیڑ کے ساتھ

 گھونسلہ بھی گرا ہے پیڑ کے ساتھ

اک پرندہ پڑا ہے پیڑ کے ساتھ

کچھ مناجات ہیں پرندے کی

پھول کیا کیا گرا ہے پیڑ کے ساتھ

خوشبو کلیوں کی رنگ پھولوں کا

خاک میں مل گیا ہے پیڑ کے ساتھ

حق کے بندے کہیں لا پتہ ہو گئے

حق کے بندے کہیں لا پتہ ہو گئے

جتنے جھوٹے تھے سب دیوتا ہوں گئے

کان میں ان کے ہم نے وہ سب کہہ دیا

جس کو سنتے ہی عارض حنا ہو گئے

خوب سیرِ گلستانِ دل ہم نے کی

ان کی آنکھوں کے جب باب وا ہو گئے

پورے آسمان میں سے نصف چاند

 پورے آسمان میں سے نصف چاند

دو پہاڑوں کے درمیاں لنگر انداز ہے

آوارہ پھرتی رات آنکھوں کے خنجر میں ڈھل رہی ہے

دیکھو اب کتنے ستارے تالاب میں گرتے ہیں

رات میری آنکھوں کے درمیان

سوگواری کے خط کھینچ کر غائب ہو جاتی ہے

ہونٹوں پہ آ گئے ہیں پھر درد کے فسانے

 ہونٹوں پہ آ گئے ہیں پھر درد کے فسانے

آنکھوں سے بہہ نہ جائے آنسو اسی بہانے

خاموشیوں پہ میری وہ ان کا مسکراتا

یادیں سمیٹ لائیں گزرے ہوئے زمانے

اللہ لاج رکھنا اب میرے ضبط غم کی

وہ آ رہے ہیں اپنا دردِ نہاں سنانے

فصل ایسی ہے الفت کے دامن تلے

 فصل ایسی ہے الفت کے دامن تلے

ہم جلیں، تم جلو، ساری دنیا جلے

تپ کے کندن کی مانند نکھرا جنوں

جس قدر غم بڑھا بڑھ گئے حوصلے

دل میں پھیلی ہے یوں روشنی یاد کی

جیسے ویران مندر میں دیپک جلے

ترے حضور میں دل کو سکوں نصیب نہیں

 تِرے حضور میں دل کو سکوں نصیب نہیں

حریفِ ذوقِ تماشا کوئی غریب نہیں

نشانِ جادۂ ہجر و وصال دھوکا ہے

مقامِ عشق بہت دور ہے قریب نہیں

مینار مسجد و محراب و منبر و دیوار

وہی ہیں پر وہ مؤذن نہیں خطیب نہیں

ہوا کے شہر میں اِک دیپ جلنے والا ہے

 ہوا کے شہر میں اِک دیپ جلنے والا ہے

سو اب کے شہر کا منظر بدلنے والا ہے

الٰہی خیر! سفینۂ قلب و جاں کی خیر

کہ آنسوؤں کا سمندر مچلنے والا ہے

ہزار بار اسے دل نے دھمکیاں دی ہیں

خیالِ یار کہاں پھر بھی ٹلنے والا ہے

میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے

میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے

مِرے پروں کو ہوا کیا اڑان سے پہلے

مِرے نصیب میں رستوں کی دھول لکھی تھی

نہ مل سکی مجھے منزل تکان سے پہلے

یہ کون شخص تھا چالاک کس قدر نکلا

کہ بات چھیڑ گیا درمیان سے پہلے

Tuesday 22 November 2022

اک آب سرخ ہے اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں

 اک آب سرخ ہے اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں

لہو کہ بہتا ہے، کرتا کراتا کچھ بھی نہیں

بس اس قدر ہے کہ شاید خلاصہ کچھ بھی نہیں

ہمارا اپنا تعارف لہٰذا کچھ بھی نہیں

یہ کارگاہِ ہوس ہے یہاں پہ ہجر و وصال

فریبِ عشق ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں

شبوں کے دیس میں ہم کس بنا پہ ڈٹ جاتے

 شبوں کے دیس میں ہم کس بنا پہ ڈٹ جاتے

جہاں چراغ 🪔 جلانے پہ ہاتھ کٹ جاتے

کلائی کاٹ کے سوئی ہے چین سے لڑکی

💢اگر نہ کاٹتی دو خاندان کٹ جاتے💢

خوشی سے پھول گئے تھے یہ بھول کرتے ہوئے

💔اگر اداس نہ ہوتے تو لوگ پھٹ جاتے

گریہ غبار دشت مصیبت نہیں مجھے

 گریہ، غبار، دشت مصیبت نہیں مجھے

دیوار و در سے خاص محبت نہیں مجھے

اک مختصر حیات کسی خواب کی طرح

اس پر ستم یہ خواب حقیقت نہیں مجھے

بیزار پیڑ،۔ تیز ہوا،۔ تیرگی، قفس

یعنی پرندگی کی سہولت نہیں مجھے

ہم ان کی نظر میں بھی اداکار ہوئے ہیں

 ہم ان کی نظر میں بھی اداکار ہوئے ہیں

جو لوگ ہمیں دیکھ کر فنکار ہوئے ہیں

ہم یوں ہی نہیں شہ کے عزادار ہوئے ہیں

نسلی ہیں سو اصلی کے پرستار ہوئے ہیں

تہمت تو لگا دیتے ہو بے کاری کی ہم پر

پوچھو تو صحیح کس لیے بیکار ہوئے ہیں

مجھے جینا نہیں آتا تجھے جینا نہیں آتا

 مجھے جینا نہیں آتا

میں جیسے درد کا موسم

گھٹا بن کر جو بس جاتا ہے آنکھوں میں

دھنک کے رنگ خوشبو نذر کرنے کی تمنا 

لے کے جس منظر تلک جاؤں

سیہ اشکوں کے گہرے کہر میں ڈوبا ہوا پاؤں

کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے

 کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے

شیشے کے گھر میں تجھ کو بھی رہنا نہ بھول جائے

منزل کا نشہ قربت منزل نہ چھین لے 

اپنی گلی میں آ کے ہی رستہ نہ بھول جائے 

مت رکھ تضاد ظاہر و باطن کہ آدمی 

تجھ کو تِرے عمل سے پرکھنا نہ بھول جائے 

میری کشتی ٹوٹ رہی ہے سر سے اونچا پانی ہے

 میری کشتی ٹوٹ رہی ہے، سر سے اونچا پانی ہے

پانی کاٹتے جیون بیتا،۔ پھر بھی کتنا پانی ہے

تم بھی خوش ہو اپنے گھر میں اور میں اپنے سمندر میں

اپنی اپنی مٹی ہے،۔ اور اپنا اپنا پانی ہے

کھلا سمندر میرا گھر ہے، میری قبر بھی ہو تو کیا

بازوؤں جیسی لہریں ہیں اور آنکھوں جیسا پانی ہے

آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ

 آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ

ہو ہی جائے گی کوئی جینے کی تدبیر نہ دیکھ

حادثے اور بھی گزرے تری الفت کے سوا

ہاں مجھے دیکھ مجھے اب میری تصویر نہ دیکھ

یہ ذرا دور پہ منزل یہ اجالا یہ سکوں

خواب کو دیکھ ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ

بدن تو جل گئے سائے بچا لیے ہم نے

 بدن تو جل گئے، سائے بچا لیے ہم نے

جہاں بھی دھوپ ملی، گھر بنا لیے ہم نے

اس امتحان میں سنگین کس طرح اٹھتی

دعا کے واسطے جب ہاتھ اٹھا لیے ہم نے

کٹھن تھی شرطِ رہِ مستقیم، کیا کرتے

ہر ایک موڑ پہ کتبے سجا لیے ہم نے

ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو

 ترس رہا ہوں مگر تُو نظر نہ آ مجھ کو

کہ خود جدا ہے تو مجھ سے نہ کر جدا مجھ کو

وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر

وہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو

چٹخ اٹھا ہو سلگتی چٹان کی صورت

پکار اب تو مِرے دیر آشنا مجھ کو

Monday 21 November 2022

فضا ہے ایسی کہ کوئی نہیں کہیں محفوظ

 فضا ہے ایسی کہ کوئی نہیں کہیں محفوظ

نہ مسجدوں میں نمازی، نہ ہے جبیں محفوظ

یہاں پہ ہوتے ہیں ہر روز بم دھماکے ہی

ہے کیوں نہیں بھلا یہ میری سر زمیں محفوظ

ہمیشہ چولہے تو سسرال ہی میں پھٹتے ہیں

کہ بیٹی بچتی ہے بس، اور بہو نہیں محفوظ

میں خود کے زنداں نماں شہر سے

 حیرانگی


میں خود کے زنداں نماں شہر سے

فرار ہو کر بہت مگن تھا

کہ میں خلا کو شکست دے کر

نئے جہانوں کو پا گیا ہوں

عمل ہوا ہوں، امر ہوا ہوں

وہ جن کے سر سر دربار خم ہیں

 وہ جن کے سر، سرِ دربار خم ہیں

انہیں کے پاس سونے کے قلم ہیں

اگرچہ زندگی میں غم ہی غم ہیں

مگر ہارے نہیں ہیں، ہم بھی ہم ہیں

مجھے دیکھی ہوئی لگتی ہے دنیا

یہ سب منظر مِری حیرت سے کم ہیں

بیمار غم کا کوئی مداوا نہ کیجیے

 بیمارِ غم کا کوئی مداوا نہ کیجیے

یعنی ستمگری بھی گوارا نہ کیجیے

رسوائی ہے تو یہ بھی گوارا نہ کیجیے

یعنی پسِ خیال بھی آیا نہ کیجیے

ظرف نگاہ چاہیے دیدار کے لیے

رخ کو پسِ نقاب چھپایا نہ کیجیے

ہے مبتلا یہ دل مرا کب سے عذاب میں

 ہے مبتلا یہ دل مِرا کب سے عذاب میں

جینا محال ہو گیا ہے اضطراب میں

شوقِ جنوں کی راہ بھی کتنی عجیب ہے

چلتا ہی جا رہا ہوں مسلسل سراب میں

پوچھا تھا اک فقیر سے مفہوم عشق کا

خونِ جگر نکال کے رکھا جواب میں

عجیب بات یہ ہوئی کہ ساتھ بھی نہیں رہے

 عجیب بات یہ ہوئی کہ ساتھ بھی نہیں رہے

ہمارے ہاتھ اب ہمارے ہاتھ بھی نہیں رہے

وہ زندگی گزارنے کی بات کر رہے تھے اور

ہمارے پاس آئے، ایک رات بھی نہیں رہے

کچھ اس طرح چھپاؤ میں کہیں دکھائی بھی نہ دوں

کچھ اس طرح مٹاؤ میری بات بھی نہیں رہے

یہ تم پہ منحصر تھا کہ یا تو ڈر کر بدل لیتے

 یہ تم پہ منحصر تھا کہ یا تو ڈر کر بدل لیتے

کہانی کے کسی انجام کو مر کر بدل لیتے

محبت اک شجر ہے جو دلوں کا آشیانہ ہے

شجر جب سُوکھ جاتے تو پرندے در بدل لیتے

جہاں ہم تھے وہیں ٹھہرے، رسائی تم کو دی ورنہ

تِرے آنے سے پہلے ہم یہ اپنا گھر بدل لیتے

ترے لہو نے غبار گماں کو صاف کیا

 تِرے لہو نے غبارِ گُماں کو صاف کیا

تِری نظر پہ حقیقت نے انکشاف کیا

شکستہ جسم تِری قبلہ گاہی پر میں نثار

بدن دریدہ فرس نے تِرا طواف کیا

بکھر گیا تھا سرِ دشت کوئی مصحفِ گل

ہوا نے ریت کو ہر برگ کا غلاف کیا

درد کی رات پھر آ گئی

 شہر اور زنجیر


درد کی رات پھر آ گئی

میرے پاؤں کی زنجیر پھر جانے مجھ کو کہاں لے چلے گی

کبھی شہر کی نیم روشن سی ویران گلیاں

خمیدہ سی دیوار کے سائے سائے

میں پاؤں میں کنکر چبھوتا چلوں گا

فرض کرو تن کوزہ ہو اور اس میں کڑوا پانی ہو

 فرض کرو تن کوزہ ہو اور اس میں کڑوا پانی ہو

اور پھر یہ محسوس کرو یہ پیاس نہیں عُریانی ہو

فرض کرو تم وحشی ہو اور دشت کا بندوبست نہیں

کچھ سوندھے باغات ہوں اور اک تنہا رات کی رانی ہو

فرض کرو سناٹے کی دو آنکھیں ہوں اور روشن ہوں

دو آنکھیں ہوں، اور ان میں آوازے کی حیرانی ہو

اب کوئی نیند کی سولی سے اتارے تم کو

 اب کوئی نیند کی سُولی سے اتارے تم کو

مار ڈالیں نہ کہیں خواب تمہارے تم کو

جس سہولت سے ہمیں ہار دیا ہے تم نے

اس سہولت سے کبھی کوئی نہ ہارے تم کو 

ایک جگنو کو ہتھیلی سے اُڑانے والے

مل نہ پائیں گے کبھی چاند ستارے تم کو

Sunday 20 November 2022

میں نے دیکھا کہ موت ہے رقصاں

 میں نے دیکھا کہ موت ہے رقصاں

ہاسپٹل کے سفید بستر پر 

اپنی اکھڑی ہوئی سی سانسوں کے بیچ

آنسو بہتے تمہارے گالوں پر

سسکیوں اور ہچکیوں کے بیچ

اپنے ماتھے پر آخری بوسہ 

طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر

 طوفاں کوئی نظر میں نہ دریا ابال پر

وہ کون تھے جو بہہ گئے پربت کی ڈھال پر

کرنے چلی تھی عقل جنوں سے مباحثے

پتھر کے بت میں ڈھل گئی پہلے سوال پر

میرا خیال ہے کہ اسے بھی نہیں ثبات

جاں دے رہا ہے سارا جہاں جس جمال پر

غم گریہ مشکلات میں کاٹی تمام عمر

 غم گریہ مشکلات میں کاٹی تمام عمر

میں نے ہی میرے ساتھ میں کاٹی تمام عمر

تجھ پر نہیں کھلے گا سیاہی کا سلسلہ

تُو نے سفید رات میں کاٹی تمام عمر

اپنی تلاش کارِ اذیت سے کم نہ تھی

گم ہو کے تیری ذات میں کاٹی تمام عمر

بعض اوقات تو قدرت کا ظرف اتنا چھوٹا ہو جاتا ہے

 بعض اوقات تو قدرت کا ظرف اتنا چھوٹا ہو جاتا ہے

ایسے روگ لپٹ جاتے ہیں، بندہ پورا ہو جاتا ہے

اللہ جانے اس کے بعد کہانى کیسے ختم ہوئى جب

بوڑھے باپ کى لاٹھى جیسا بیٹا اندھا ہو جاتا ہے

دن بھر کی بیزاری سے میں رات کو اتنا تھک جاتا ہوں

آنکھیں بوجھل دیکھ کے میرا بستر چوڑا ہو جاتا ہے

یہی وقت تھا ہاں یہی وقت تھا

 یہی وقت تھا

ہاں یہی وقت تھا

بلکہ تاریخ بھی تو یہی تھی

جب اِک مہرباں ہاتھ نے

جانے کیا سوچ کر بس اچانک

مِری روح کو تھپتھپایا

Saturday 19 November 2022

وہ روٹھتا ہے کبھی دل دکھا بھی دیتا ہے

 وہ روٹھتا ہے، کبھی دل دُکھا بھی دیتا ہے

میں گر پڑوں تو مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے

وہ میری راہ میں پتھر کی طرح رہتا ہے

وہ میری راہ سے پتھر ہٹا بھی دیتا ہے

بہت خلوص جھلکتا ہے طنز میں اس کے

وہ مجھ پہ طنز کے نشتر چلا بھی دیتا ہے

زمیں پہ بیٹھ کے بے اختیار ڈھونڈتا ہوں

 زمیں پہ بیٹھ کے بے اختیار ڈھونڈتا ہوں

میں آسمان کا گرد و غبار ڈھونڈتا ہوں

مجھے پتہ ہے کسی میں یہ شے نہیں موجود

ہر ایک شخص میں کیوں اعتبار ڈھونڈتا ہوں

اکیلا بیٹھ کے مسجد کے ایک کونے میں

کمال کرتا ہوں، پروردگار ڈھونڈتا ہوں

افسوس کس طرح یہ دہاں سے نکل گیا

 افسوس کس طرح یہ دہاں سے نکل گیا

حرفِ غلط جو میری زباں سے نکل گیا

وہ جس نے دل سے مان لیا عشق کو امیر

سمجھو حدودِ سُود و زیاں سے نکل گیا

یعنی، بیان ہوتی کہانی ہوئی ہے، ختم

یعنی کہ میں بھی حرفِ بیاں سے نکل گیا

فصیل شہر سے باہر بلا کے مارا گیا

 فصیلِ شہر سے باہر بلا کے مارا گیا

سبھی کے سامنے عبرت بنا کے مارا گیا

مِرے خلاف گواہی تھی میرے بھائی کی

اسی لیے تو عدالت میں لا کے مارا گیا

یہ حکم تھا کہ مجھےِ آگ پر ہی چلنا ہے

میں بے گناہ تھا پھِر بھی جلا کے مارا گیا

دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے

 دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے

بستی پیچھے رہ جائے گی آگے آگے صحرا ہے

ایک ذرا سی بات پہ اس نے دل کا رشتہ توڑ دیا

ہم نے جس کا تنہائی میں برسوں رستہ دیکھا ہے

پیار محبت آہ و زاری لفظوں کی تصویریں ہیں

کس کے پیچھے بھاگ رہے ہو دریا بہتا رہتا ہے

تو بدمزاج تھا تو نے بھی التجا نہیں کی

 تُو بدمزاج تھا، تُو نے بھی التجا نہیں کی

جو اب فقیر سے تکرار ہے، دعا نہیں کی

میں خاندان کی پابندیوں سے واقف تھی

خدا کا شکر ہے اس شخص نے وفا نہیں کی

اذیتیں ہی سہی دل کی چوٹ بھی ہے عزیز

پرانا زخم رفو کر لیا،۔ دوا نہیں کی

منظر سے بچھڑنے کا کرب

 منظر سے بچھڑنے کا کرب

ہم اپنے منظر سے بچھڑے

آنکھوں میں اس کا عکس لیے بھٹک رہے ہیں

کوئی نئی رت ہمیں پناہ دینے لگتی ہے

تو اچانک

بے دعا لمحوں کو کچھ نیا سوجھتا ہے

بہت وسیع ہے دنیا مگر ہمارے لیے

 غبار


بہت وسیع ہے دنیا مگر ہمارے لیے

کسی بھی گوشۂ زنجیر میں پناہ نہیں

سو اپنے آپ میں ہی قید کر لیا خود کو

ہمیں بھی اب کوئی آزادیوں کی چاہ نہیں

کوئی بھی چیز میسّر نہیں ہے دنیا میں

کوئی بھی چیز نہیں ہے مگر سکون تو ہو

پھاڑوں نہ گریبان دما دم نہ کروں میں

 پھاڑوں نہ گریبان، دما دم نہ کروں میں

احساس کو اظہار سے باہم نہ کروں میں

میں روز اٹھاتا ہوں کسی خواب کی میت

اور آپ یہ کہتے ہیں کہ ماتم نہ کروں میں

سمجھاتا تو ہوں خود کو کہ مضبوط رکھوں دل

اور آنکھ کو تنہاٸی میں بھی نم نہ کروں میں

نہتے آدمی پہ بڑھ کے خنجر تان لیتی ہے

 نہتے آدمی پہ بڑھ کے خنجر تان لیتی ہے

محبت میں نہ پڑ جانا، محبت جان لیتی ہے

اسے خاموش دیکھوں تو سنائی کچھ نہیں دیتا 

دکھائی کچھ نہیں دیتا نظر جب کان لیتی ہے 

اداسی آشنا ہے اس قدر آہٹ سے میری اب

جہاں سے بھی گزرتا ہوں مجھے پہچان لیتی ہے

Friday 18 November 2022

سوداگری کے سارے حوالوں کو بیچ دوں

 سوداگری کے سارے حوالوں کو بیچ دوں

میں بھوک کو خریدوں نوالوں کو بیچ دوں

ڈر ہے کہ تیرگی کو بتا دیں گے میرا عیب

چن چن کے گھر کے سارے اجالوں کو بیچ دوں

ممکن ہے بیچ دوں کبھی اپنے سخن کو میں

ایسا بھی اب نہیں کہ خیالوں کو بیچ دوں

دست قاتل کو اگر خاص ادا دی جائے

 دستِ قاتل کو اگر خاص ادا دی جائے 

پھر پسِ مرگ نہ منصف کو صدا دی جائے

درد مسکے گا تو گلزار کرے گا دل کو

ٹوٹتے رشتوں کو اے دوست دعا دی جائے

پھر جلا ڈالیں گے یادوں کے سنہرے بن کو

اب نہ شعلوں کو سرِ شام ہوا دی جائے

نظر فریب تھی منظر سے کچھ نہیں نکلا

 نظر فریب تھی منظر سے کچھ نہیں نکلا

جسے کریدا وہ اندر سے کچھ نہیں نکلا

کسی کے پاؤں کی ٹھوکر سے چشمہ نکلا تھا

ہمارے ماتھے کی ٹکّر سے کچھ نہیں نکلا

خدا کا نور بدن کے چراغ سے نکلا

حَرم سے گرجے سے مندر سے کچھ نہیں نکلا

لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے

 لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے

ہم نے اپنا انتر کھوجا دیوانے کہلائے

کیسے سپنے کس کی آشا کب سے ہیں مہمان بنے

تنہائی کے سونے آنگن میں یادوں کے سائے

آنکھوں میں جو آج کسی کے بدلی بن کے جھوم اٹھی ہے

کیا اچھا ہو ایسی برسے سب جل تھل ہو جائے

جیسے اس پار اور اس پار میں نہیں بنتی

 جیسے اس پار اور اس پار میں نہیں بنتی

آج کل مجھ میں میرے یار میں نہیں بنتی

میرے افکار کی حد ہے نہ کوئی سرحد ہے

آپ کے اور میرے افکار میں نہیں بنتی

لوگ تو ایک ہی قالب میں ڈھلے ہیں لیکن

دونوں ملکوں کی پہ سرکار میں نہیں بنتی

سينٹ کی کجلے کی اور غازے کی گلکاری کے بعد

 سينٹ کی کجلے کی اور غازے کی گلکاری کے بعد

وہ حسين لگتی ہے، لیکن کتنی تياری کے بعد

مدتوں کے بعد اس کو ديکھ کر ايسا لگا

جيسے روزہ دار کی حالت ہو افطاری کے بعد

باندھ کر سہرہ نظر آيا يوں نوشہ مياں

جس طرح مجرم دکھائی دے گرفتاری کے بعد

گلوں کے واسطے جیسے چمن ضروری ہے

 گلوں کے واسطے جیسے چمن ضروری ہے

مہاجروں کے لیے بھی وطن ضروری ہے

خدا کے واسطے سرسبز پیڑ مت کاٹو

زمیں کے جسم پہ یہ پیرہن ضروری ہے

رہِ حیات کی تارکیاں مٹانے کو

تمہاری یاد کی اک اک کرن ضروری ہے

اگرچہ رنج و الم سے نمٹ نہیں سکتے

اگرچہ رنج و الم سے نمٹ نہیں سکتے

بکھر تو سکتے ہیں رستے سے ہٹ نہیں سکتے

اذیتوں سے ڈریں بھی تو کیا کِیا جائے

کہ راہِ عشق سے واپس پلٹ نہیں سکتے

محبتوں کے دِیے کو جلائے رکھتے ہیں

اندھیری راہوں میں راہی بھٹک نہیں سکتے

سنا ہے اس کو سخن کے اصول آتے ہیں

سنا ہے اس کو سخن کے اصول آتے ہیں

کرے کلام تو باتوں میں پھول آتے ہیں

سنا ہے سحر میں اس کے ہیں مبتلا سارے

جب اس سے ملتے ہیں تو ہوش بھول آتے ہیں

سنا ہے کِھلتے ہیں ان کے مزاج گل کی طرح

تمہاری بزم میں جو دل ملول آتے ہیں

شہر خوباں شہر مقتل بن گیا ہے

شہرِ خُوباں شہرِ مقتل


مِرے اس شہر کی رونق

بسیں رکشا ٹرامیں موٹریں

اور آدمی سیلاب کے مانند

سڑکیں ہمہماتی شور ہنگامہ تگ و دو

وقت کی گردش میں صبح و شام کا معمول ہے

Thursday 17 November 2022

خلش بھی اک ادھورے چاند جیسی ہے

 بہت باتیں ہیں کرنے کی

جو ہم اک دوسرے سے

چاہ کر بھی کر نہیں سکتے

کہ ان باتوں کو سننے کی 

خلش بھی اک ادھورے چاند جیسی ہے

سنو پھر ایسا کرتے ہیں

کروٹ کروٹ سوچ کا ہالہ

 کروٹ کروٹ سوچ کا ہالہ

رات ہو جیسے یاد کا جالا

جس کی کنجی تیری آنکھیں

اپنا دل ہے ایسا تالا

اک لمحہ پانے کا ارماں

صدیوں میرے دل نے پالا

ابھی داستان طویل ہے ابھی خواب دیکھے گا اور بھی

 ابھی داستان طویل ہے


ابھی داستان طویل ہے

ابھی خواب دیکھے گا اور بھی

ابھی مات کھائے گا بارہا

ابھی سر اٹھانا ہے پھر تجھے

ابھی سر کٹائے گا بارہا

دعا کو ہاتھ اٹھائے ہوئے زمانہ ہوا

 دعا کو ہاتھ اٹھائے ہوئے زمانہ ہوا

خدا کو گھر میں بلائے ہوئے زمانہ ہوا

تمہاری یاد کا دیپک جلا کے راتوں میں

ہوا سے آنکھ ملائے ہوئے زمانے ہوا

تمہارے خواب مِرا آخری اثاثہ تھے

تمہارے خواب جلائے ہوئے زمانہ ہوا

چمن میں کیا ہوا کس نے یہ ہلچل سی مچائی ہے

 چمن میں کیا ہوا کس نے یہ ہلچل سی مچائی ہے

کل چٹکی کہ دل ٹوٹا کوئی آواز آئی ہے

مسیحا! کیسی یہ تدبیر تُو نے آزمائی ہے

نمک سے میرے زخموں کی پرانی آشنائی ہے

زمانے کی سمجھ میں کب جنوں کی بات آئی ہے

ہنسی دیوانگی کی میری دنیا نے اڑائی ہے

ابر چھایا تھا فضاؤں میں تری باتوں کا

 ابر چھایا تھا فضاؤں میں تِری باتوں کا

کتنا دلکش تھا وہ منظر بھری برساتوں کا

بجھتی شمعوں کے تعفن سے بچانے تجھ کو

میں نے آنچل میں سمیٹا ہے دھواں راتوں کا

کوئی شہنائی سے کہہ دو ذرا خاموش رہے

شور اچھا نہیں لگتا مجھے باراتوں کا

ہجر کی شب زلف برہم کا خیال آتا رہا

 ہجر کی شب زلفِ برہم کا خیال آتا رہا

اک نہ اک ہر دن مِرے سر پر وبال آتا رہا

شکر ہے تاریک دل میں روشنی کے واسطے

گو تصور میں سہی اس کا جمال آتا رہا

ہے کرم اس کا کہ ہم سے بے بصر کے واسطے

عالمِ امثال میں وہ بے مثال آتا رہا

چہرہ ہے مِرا دھول کوئی غازہ نہِیں ہے

 چہرہ ہے مِرا دھول، کوئی غازہ نہِیں ہے

اس درد کا اس شخص کو اندازہ نہِیں ہے

اس بار حویلی میں انا کی ہوں مقید

کس طرز کا گنبد ہے کہ دروازہ نہِیں ہے

پکڑا تھا مِرے باپ کا کل اس نے گریباں

وہ شخص ابھی شہر میں لی ہاذا نہِیں ہے

اب چمن میں ہم نفس اور ہم زباں کوئی نہیں

 اب چمن میں ہم نفس اور ہم زباں کوئی نہیں 

ہم نشیں کوئی نہیں ہے راز داں کوئی نہیں 

کس سے حال دل کہیں کس کو سنائیں حال زار 

چارہ ساز، درد دل، سوز نہاں کوئی نہیں 

کل بھی میں تنہا رہا ہوں، اور تنہا آج بھی

کل وہاں کوئی نہ تھا اور اب یہاں کوئی نہیں 

گلستاں در گلستاں اب باغباں کوئی نہیں

 گلستاں در گلستاں اب باغباں کوئی نہیں

پھول سب تنہا کھڑے ہیں تتلیاں کوئی نہیں

دھوپ اچھی لگ رہی ہے آج کتنے دن کے بعد

بادلوں کا دور تک نام و نشاں کوئی نہیں

خشک لکڑی کی طرح سے جل گئے سارے مکاں

یہ عجب کہ ساری بستی میں دہواں کوئی نہیں

زماں کے جو اشارے ہیں

زماں کے جو اشارے ہیں

ہمارے حق میں سارے ہیں

تِری چاہت، تِرے وعدے

خوشی کے استعارے ہیں

ہمارے دل کی محفل میں

سبھی جلوے تمہارے ہیں

ہوں شامل سب میں اور سب سے جدا ہوں

ہوں شامل سب میں اور سب سے جدا ہوں

میں خود یہ سوچتا رہتا ہوں کیا ہوں

حصارِ ذات سے باہر نکل کر

میں ہر صورت میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں

وہ مجھ سے دور بھی ہے پاس بھی ہے

کبھی میں اپنے دل میں دیکھتا ہوں

آٹھ سمتوں میں چار کونوں میں

 آٹھ سمتوں میں چار کونوں میں 

دل لگایا نہیں کھلونوں میں 

یہ تو میں کچھ عیاں نہیں کرتا 

غم ہے میرے تمام کونوں میں 

میں تو ٹھہرا تمہاری راہ کی خاک 

چاند شامل ہے جب کھلونوں میں 

جو سال آئے جنوں میں بدلے فسوں میں بدلے

جو سال آئے

جنوں میں بدلے فسوں میں بدلے

گزرتے یہ پل کہ خوں میں بدلے

کچھ ایک کے چاؤ چوں میں بدلے

تھے اہلِ دانش جو قید پائے

ورودھ کے سُر بڑے دبائے

نکل کے شاہیں گھروں سے آئے

یہ اور بات کہ رہبر نہ ہمسفر پھر بھی

 یہ اور بات، کہ رہبر نہ ہمسفر پھر بھی

چُنا ہے راستہ شبلی نے پُر خطر پھر بھی

یہ اور بات، زباں میں مِری نہ ہو تاثیر

کلام رب کا، کرے گا مگر اثر پھر بھی

یہ اور بات، لچک ہے ہماری فطرت میں

ملیں گے سخت اصولوں میں ہم مگر پھر بھی

Wednesday 16 November 2022

تیر برسے کبھی خنجر آئے

 تیر برسے کبھی خنجر آئے

یہ مقامات بھی اکثر آئے

شہر میں آگ لگی ہے اپنے

جو بھی آئے وہ سنبھل کر آئے

پھر تباہی کی طرف ہے دنیا

پھر ضرورت ہے پیمبر آئے

تیری یاد نے تھام لیا تھا

 تیری یاد نے تھام لیا تھا

ورنہ ہجر کا وار عجب تھا

تجھ بِن کیسے دن آئے ہیں

ہم نے ایسا کب سوچا تھا

تیرے پیار کے رتھ پر اڑتا

تاروں سے آگے پچھلی شب تھا

آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں

 آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں

کھونے والے اب کیا پائے جاتے ہیں

اچھے اچھے لوگوں کی کیا پوچھتے ہو

یاد کیے جاتے ہیں، بھلائے جاتے ہیں

ہنس ہنس کر جو پھول کھلائے تھے تم نے

اس موسم میں سب مرجھائے جاتے ہیں

کوچہ ہے یاد یار کا پِھرتے ہیں دل بدست ہم

 کوچہ ہے یادِ یار کا، پِھرتے ہیں دل بدست ہم

سجدہ گزارِ رہگزر، نشے میں اپنے مست ہم

غافل ہیں التفات سے، بے پروا اپنی ذات سے

کیسے وجود آشنا، کیسے خدا پرست ہم؟

اک دو قدم پہ یار ہے، بیڑہ ہمارا پار ہے

آنے تو دو نشیبِ جاں، بھر لیں گے ایک جست ہم

کسی سے عشق کرنا اور اس کو با خبر کرنا

 کسی سے عشق کرنا اور اس کو با خبر کرنا

ہے اپنے مطلب دشوار کو دشوار تر کرنا

نہیں ہے موت پر کچھ اختیار اے وائے مجبوری

امید مرگ میں مشکل بسر کرنا مگر کرنا

جو پر تھے مایۂ پرواز میں وجہ گرانباری

غرور بال و پر کرنا تو مجھ کو دیکھ کر کرنا

جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں

 جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں

نقد مرگ عطا ہوتا ہے صلہ کہوں، انعام کہوں

خوف کو میں نے ہنر بنایا دیکھ ایسا چالاک ہوں میں

تیرا نام نہیں لیتا ہوں، برکھا رت کی شام کہوں

اپنا حال نہ جانے کیا ہے ویسے بات بنانے کو

دنیا پوچھے درد بتاؤں، تُو پوچھے آرام کہوں

زندگی نکھر آئی جھیل کر ستم تنہا

زندگی نکھر آئی جھیل کر ستم تنہا

تیرے در سے ہاتھ آیا بس یہی کرم تنہا

دھڑکنیں سناتی ہیں لا مکاں کے افسانے

کتنی داستانوں کو سن رہے ہیں ہم تنہا

منزلیں بلاتی ہیں، جستجو مچلتی ہے

تیرگی کا عالم ہے، اور ہر قدم تنہا

تمہیں پھر یاد آئے گا

 ہری شیشم کے سینے میں

بھرا بارود ہے جس نے

اسے کہہ دو

کہ جب اندھے تلاطم میں

بہت نقصان ہو گا تو

تمہیں پھر یاد آئے گا

عالم سوز و ساز میں کہنہ ہے بزم کائنات

 طلسمِ سومنات


عالمِ سوز و ساز میں کہنہ ہے بزمِ کائنات

دیر و حرم ہیں آج کل بت کدۂ تصورات

برقِ جمال نے دیا ہنس کے ثبوتِ زندگی

ابرِ بہار نے پڑھا رو کے صحیفۂ حیات

صبحِ ازل میں تیرا نور شامِ ابد میں تیری آب

عشق حضور و اضطراب حسن فقط تجلیات

دل میں میرے ہو گیا چیر کمینہ سا

اردو پنجابی مکس زعفرانی غزل


دل میں میرے ہو گیا چِیر، کمینہ سا​

نظر کا کھِچ کر مارا تِیر، کمینہ سا​

ویسے اُس کا ساری ای ٹبر شوہدا تھا​

لیکن اُس کا وڈا وِیر، کمینہ سا ​

اُس کو پُلس سے روز ہی چھتر پڑتے تھے​

کرتا تھا ایسی تقریر، کمینہ سا

خوب رشوت چلے دلیل کے ساتھ

 خوب رشوت چلے دلیل کے ساتھ

جج ملا ہوا اگر وکیل کے ساتھ

نوٹ دو چار رکھ دے فائل میں

اچھا برتاؤ کر عدیل کے ساتھ

بس دکھا دے جناح کی تصویر

کچھ دلائل بھی دے اپیل کے ساتھ

Tuesday 15 November 2022

ہماری آنکھوں میں جہاں کبھی خواب اترتے تھے

 روشنی کے معبدوں میں بیٹھی عورتیں


ہماری آنکھوں میں جہاں کبھی خواب اترتے تھے

اب وہاں کانٹوں کا بسیرا ہے

جن کی مُسلسل چُبھن اور رِستے لہو نے

ہمیں ہمارے غلط فیصلوں کی ہر پل سزا دی ہے

ہماری شیریں سخنی کا ایک زمانہ گواہ تھا

نہ تم میرے نہ دل میرا نہ جان ناتواں میری

 غزل گیت


نہ تم میرے نہ دل میرا نہ جان ناتواں میری

تصور میں بھی آ سکتیں نہیں مجبوریاں میری

نہ تم آئے، نہ چین آیا، نہ موت آئی شبِ وعدہ

دل مضطر تھا میں تھا اور تھیں بے تابیاں میری

عبث نادانیوں پر آپ اپنی ناز کرتے ہیں

ابھی دیکھی کہاں ہیں آپ نے نادانیاں میری

تیرا ہجر میرا نصیب ہے تیرا غم ہی میری حیات ہے

 غزل گیت


تیرا ہجر میرا نصیب ہے، تیرا غم ہی میری حیات ہے

مجھے تیری دوری کا غم ہو کیوں، تو کہیں بھی ہو میرے ساتھ ہے

میرے واسطے تیرے نام پر کوئی حرف آئے، نہیں نہیں

مجھے خوف دنیا نہیں مگر، میرے رو برو تیری ذات ہے

تیرا وصل اے میری دلربا، نہیں میری قسمت تو کیا ہوا؟

میری مہ جبیں یہ ہی کم ہے کیا، تیری حسرتوں کا تو ساتھ ہے

اللہ تری شان یہ اپنوں کی ادا ہے

 غزل گیت


اللہ تِری شان، یہ اپنوں کی ادا ہے

محفل میں ہمیں دیکھ کے منہ پھیر لیا ہے

تُو مجھ کو مٹانے کی قسم کھا تو رہا ہے

اس کو نہ مگر بُھول کہ میرا بھی خدا ہے

مرنا ہی مقدر ہے تو جینے کی سزا کیوں

کس جُرم کی انسان سزا کاٹ رہا ہے

نزع کی سختی بڑھی ان کو پشیماں دیکھ کر

 نزع کی سختی بڑھی ان کو پشیماں دیکھ کر

موت مشکل ہو گئی جینے کا ساماں دیکھ کر

وہ کبھی جب التفات ناز سے لیتے ہیں کام

کانپ جاتا ہوں میں اپنے دل کے ارماں دیکھ کر

کرتے ہیں اربابِ دل اندازۂ جوش بہار

میرا دامن دیکھ کر میرا گریباں دیکھ کر

تیرا اصرار نہ انکار تلک لے جاوے

 تیرا اصرار نہ انکار تلک لے جاوے

جیت کو تیری کہیں ہار تلک لے جاوے

ہے کرشمہ یہ بھی اہلِ جنوں کا جو اپنی

بند وہ آنکھ کرے یار تلک لے جاوے

کچھ تو اسرار ہے اس عشق میں پنہاں جو یوں

سر کو در سے یہ اٹھا؛ دار تلک لے جاوے

قلم کباڑ میں دے دی کتاب ردی میں

 قلم کباڑ میں دے دی، کتاب ردی میں 

فروخت کر دئیے آنکھوں نے خواب ردی میں 

عجب نہیں جو مِرا حرف بھی ہے بے توقیر 

سخن پڑے ہیں یہاں بے حساب ردی میں 

کچھ اس طرح دیا ترتیب عاقبت کا گھر 

گناہ شیلف پہ رکھے، ثواب ردی میں 

میں اپنی آنکھوں کے کھارے دریا بجھا رہا ہوں

 لا تقنطو


میں اپنی آنکھوں کے کھارے دریا بجھا رہا ہوں

میں اپنی آنکھوں کو آج پتھر بنا رہا ہوں

خدا کی دھرتی کے لوگ اچھے نہیں رہے ہیں

عقیدتوں کی ہر ایک مسند پہ حیرتوں کے

سوال نامے بکھر گئے ہیں

دل میں آنکھیں رکھ لینا یا آنکھوں میں یہ دل رکھنا

 دل میں آنکھیں رکھ لینا، یا آنکھوں میں یہ دل رکھنا

جتنا بڑا سمندر ہو،۔ تم اتنا ہی ساحل رکھنا

خود ہی اک تصویر بنانا، شہرِ محبت کی، جس میں

رستے بھی دشوار بنانا، چلنا بھی مشکل رکھنا

رنگ بھروں میں، اس تصویرِ شہرِ محبت میں، اور تم

رات کی کالک کم نکلے تو اپنے لبوں کا تل رکھنا

جس سے دل مانوس تھا اچھا بھلا ملتا نہیں

 وردِ طلب


جس سے دل مانوس تھا اچھا بھلا ملتا نہیں

نازنیں تیری عماری کا پتہ ملتا نہیں

فاصلے سب بیچ کے

فاصلے سب بیچ کے

دو ہیں دنیائیں جو دیکھو 

پہلے آنکھیں کھول کے پھر میچ کے

Monday 14 November 2022

شب کو تھا وہ کسی کی بانہوں میں

 شب کو تھا وہ کسی کی بانہوں میں

آگ 🔥 جلتی رہی نگاہوں میں

کُھل کے برسا نہیں کبھی ساون

ایک بادل ہے ان نگاہوں میں

تیرے کوچے میں وہ نہیں آیا

برف سی جم گئی تھی راہوں میں

ہم ٹھہرنے کے نہیں عمر رواں رکھتے ہیں

 ہم ٹھہرنے کے نہیں عمر رواں رکھتے ہیں

وہ زمیں گھومتی ہے پاؤں جہاں رکھتے ہیں

دیکھتے سب ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں

اس طرح شہر میں ہم امن و اماں رکھتے ہیں

دل لرزتا ہے تو ڈرتے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائے

شاخ پر ایک ہی تو برگ خزاں رکھتے ہیں

روٹھو گے بے سبب تو منایا نہ جائے گا

 روٹھو گے بے سبب تو منایا نہ جائے گا

بے جا تمہارا ناز اٹھایا نہ جائے گا

وہ ساتھ لائیں غیر کو گر بزم میں تو کیا

آنکھوں پہ منتوں سے بٹھایا نہ جائے گا

یوں میرے ساتھ بزم میں غیروں کا بیٹھنا

وہ اعتراض ہے کہ اٹھایا نہ جائے گا

نہ رہے تم جو ہمارے تو سہارا نہ رہا

 نہ رہے تم جو ہمارے تو سہارا نہ رہا 

کوئی دنیائے محبت میں ہمارا نہ رہا 

اب کوئی اور زمانے میں سہارا نہ رہا 

جس کو کہتے تھے ہمارا ہے ہمارا نہ رہا 

دے دیا حضرت عیسیٰ نے اسے صاف جواب 

تیرے بیمار کا اب کوئی سہارا نہ رہا 

مرے خیال میں جب بھی کبھی وہ آتے ہیں

 مِرے خیال میں جب بھی کبھی وہ آتے ہیں

چراغ دل میں امیدوں کا جگمگاتے ہیں

چمن کو دوستو! ایسے بھی ہم سجاتے ہیں

ہر ایک پھول کیا کانٹوں سے بھی نبھاتے ہیں

نظر کے جام وہ جب جب ہمیں پلاتے ہیں

خدا کے نام پہ پہلا سبو اٹھاتے ہیں

ہوا ہے خون فلک پہ حسیں ستاروں کا

 ہوا ہے خون فلک پہ حسیں ستاروں کا

چمن میں آگ لگی، ذکر ہے بہاروں کا

تیرے فریب نے چھینی ہے جن کی بینائی

نہ سبز باغ دکھا اب انہیں نظاروں کا

لگی ہے آگ چمن میں ستم کی بارش سے

دہک رہا ہے جگر آج سبزہ زاروں کا

بہت بے درد لمحہ تھا بہت ہی یاد آتا ہے

 بے درد لمحہ

بہت بے درد لمحہ تھا 

ہمارے درمیاں آ کر نہیں پل بھر رکا جاناں 

نہ ہم دونوں سے کچھ پوچھا 

نہ اس نے کچھ بھی بتلایا 

فقط چُھو کر ہمیں گزرا

گام دو گام سے بھی آگے تھا

 گام دو گام سے بھی آگے تھا

نشہ تو جام سے بھی آگے تھا

تھے مقیّد مکیں مکانوں میں

گھر در و بام سے بھی آگے تھا

ہجر میں لمحۂ وصال کا دکھ

فکرِ ایام سے بھی آگے تھا

مائی لارڈ ہمیں سکون کی نیند سونـے کی آپشن دی جائـے

مائی لارڈ

موت کے علاوہ بھی ہمیں

سکون کی نیند سونـے کی آپشن

دی جائـے

مائی باپ

ہماری قبروں کے کتبوں کو

خدا کی طرح اکیلا آدمی اکیلا رہنے پر

 خدا کی طرح اکیلا آدمی


زندگی اب کسی بھی لمحے

موت کے اسٹاپ پر اتار سکتی ہے

اس سے پہلے کہ موت کا اسٹاپ

دُھند میں ڈوب جائے

مجھے سب کو الوداع کہہ دینا چاہیے

اظہار محبت تمہاری نگاہیں پیام محبت

 اظہار محبت


تم اتنے حسیں ہو تم ایسے حسیں ہو 

حقیقت میں تم تو ثریا جبیں ہو 

میں کہہ دوں اگر کچھ تمہیں بھی یقیں ہو 

تمہیں پیار کرنے کو جی چاہتا ہے 

لبوں پر ہنسی ہے گلابی گلابی 

نگاہوں کی جنبش شرابی شرابی 

سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے

 سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے

راستو! ہم بھی نہیں ڈر کے ٹھہرنے والے

مارنے والے کوئی اور سبب ڈھونڈ کہ ہم

مارے جانے کے تو ڈر سے نہیں مرنے والے

کتنی جلدی میں ہوا ختم ملاقات کا وقت

ورنہ کیا کیا تھے سوالات نہ کرنے والے

میرے بس میں نہیں علاج اس کا

 میرے بس میں نہیں علاج اس کا

زخم دیکھا ہے میں نے آج اس کا

چور کو رزق کی کمی کیسی

سارے کھیتوں میں ہے اناج اس کا

کوئی لشکر بھی غالب آ جائے

دونوں جانب ہے اندراج اس کا

اداس لوگو اداس چہرو کہاں گئے ہو

 ٹوٹ پھوٹ


اداس لوگو

اداس چہرو

کہاں گئے ہو

حسین شامیں کہاں ہیں اوجھل

حسین مصرعے کہاں گئے ہیں

بات اب تک ختم نہیں سمجھے

 بات اب تک ختم نہیں سمجھے

چوٹ کھا کر بھی ہم نہیں سمجھے

کچھ بھی کہنا فضول لگتا ہے

میری چاہت صنم نہیں سمجھے

بات ساری ہی ان سنی کر دی

کچھ تو ہو گا جو تم نہیں سمجھے

کس نے دی آواز سپر کی اوٹ میں تھا

 کس نے دی آواز سپر کی اوٹ میں تھا

میرا سر تو اس کے سر کی اوٹ میں تھا

میں نے سات پرندے اڑتے دیکھے تھے 

ایک پرندہ اور شجر کی اوٹ میں تھا 

میدانوں شہروں میں لوگ سلامت ہیں 

مرنے والا اپنے گھر کی اوٹ میں تھا 

بحر ہستی میں تلاطم کبھی ایسا تو نہ تھا

بحر ہستی میں تلاطم کبھی ایسا تو نہ تھا

خیر و شر کا یہ تصادم کبھی ایسا تو نہ تھا

کھوجتا رہتا تھا انسان وہ گم گشتہ بہشت

خود بناتا ہے جہنم کبھی ایسا تو نہ تھا

بھیجے ہر دور میں جس نے کہ پیمبر اپنے

وہ خدا ذہنوں سے گم ہے کبھی ایسا تو نہ تھا

کیا بنے گا اب استخارے سے

کیا بنے گا اب استخارے سے

دن گزرتا نہیں گزارے سے

اتنی وحشت سے بھر گیا دریا

خوف آنے لگا کنارے سے

دفعتاً آنکھ جب کھلی اس کی

روشنی گر پڑی ستارے سے

ٹمٹماتے تھے ستارے چاند بھی ڈوبا نہ تھا

 ٹمٹماتے تھے ستارے چاند بھی ڈوبا نہ تھا

اک دریچہ بھی کھلا تھا اور میں سویا نہ تھا

رات اپنا بھی ہوا رِندوں کی محفل سے گزر

پی رہے تھے شیخ صاحب دور بھی پہلا نہ تھا

غمزہ و ناز و ادا کی یوں لگی تھی بِھیڑ سی

حسن والے تھے بہت لیکن کوئی تجھ سا نہ تھا

بے چراغ گھوموں میں راستہ نہیں ملتا

 بے چراغ گھوموں میں راستہ نہیں ملتا

کوئی بھی تسلی کا آسرا نہیں ملتا

گفتگو نہ کر پائے حال ہی سمجھ جائے

آدمی کوئی ایسا دوسرا نہیں ملتا

منزلیں الگ ان کی لوگ بھی جدا مجھ سے

میں بچھڑ گیا جس سے قافلہ نہیں ملتا

حجاب حسن میں یا حسن بے حجاب میں ہے

 حجاب حسن میں یا حسن بے حجاب میں ہے

یہ روشنی کا سفر عکس ماہتاب میں ہے

یقیں گماں ہو تو منزل کی سمت نا معلوم

ابھی سفر کا ارادہ فسونِ خواب میں ہے

عذابِ جاں سے مجھ کس طرح نجات ملے

کہ میرا نام ابھی حرفِ احتساب میں ہے

Sunday 13 November 2022

وہ تیری یاد کے لمحے ترے خیال کے دن

 وہ تیری یاد کے لمحے تِرے خیال کے دن

علاج درد کے زخموں کے اندمال کے دن

وہ اک رچی بسی تہذیب اپنے پُرکھوں کی

وہ دو یا چار سہی تھے مگر مثال کے دن

مجھے تو یاد ہے اب تک وہ کیا زمانہ تھا

تِرے جواب کا موسم، مِرے سوال کے دن

تجھ سے مل کر اس قدر اپنوں سے بیگانے ہوئے

 تجھ سے مل کر اس قدر اپنوں سے بیگانے ہوئے

اب تو پہچانے نہیں جاتے ہیں پہچانے ہوئے

بت جنہیں ہم نے تراشا اور خدائی سونپ دی

آ گئے ہیں سامنے پتھر وہی تانے ہوئے

خلق کی تہمت سے چھوٹے سنگ طفلاں سے بچے

خوب تھے وہ لوگ جو خود اپنے دیوانے ہوئے

بے زباں کلیوں کا دل میلا کیا

 بے زباں کلیوں کا دل میلا کیا

اے ہوائے صبح تُو نے کیا کیا

کی عطا ہر گل کو اک رنگیں قبا

بوئے گل کو شہر میں رُسوا کیا

کیا تجھے وہ صبح کاذب یاد ہے

روشنی سے تُو نے جب پردہ کیا

ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں

 ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں

کتنے حسیں تھے شام و سحر اس دیار میں

وہ باغ وہ بہار وہ دریا وہ سبزہ زار

نشوں سے کھیلتی تھی نظر اس دیار میں

آسان تھا سفر کہ ہر اک راہگزر پر

ملتے تھے سایہ دار شجر اس دیار میں

مجھے بوڑھے لوگ پسند ہیں

 مجھے بوڑھے لوگ پسند ہیں

ایسے بوڑھے جو چائے کی چُسکیوں میں

تلخ حقائق کو چینی کی مانند گھول کر پیے جاتے ہیں

جو کڑواہٹ میں بھی زندگی جیے جاتے ہیں

ایسے بوڑھے جن کے چہرے کی جُھریاں

ان پر گزری بے رحم زندگی کا نوحہ گاتی ہیں

مدت سے کوئی ان کی تحریر نہیں ملتی

مدت سے کوئی ان کی تحریر نہیں ملتی

کچھ دل کے بہلنے کی تدبیر نہیں ملتی

ہر اک کو نہیں ہوتا عرفان محبت کا

ہر اک کو محبت کی جاگیر نہیں ملتی

بچوں کو تو اس طرح جلتے نہیں دیکھا تھا

تاریخ میں کچھ ایسی تحریر نہیں ملتی

تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی

 تم کو اگر ہماری محبت نہیں رہی

ہم کو بھی اب عدو سے عداوت نہیں رہی

ہر اک ادا پہ مرنے کی عادت نہیں رہی

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی

مضمون مدعا ابھی دل میں ہی تھا مِرے

کہتے ہیں اب تو تاب سماعت نہیں رہی

ساز ہستی کا عجب جوش نظر آتا ہے

 سازِ ہستی کا عجب جوش نظر آتا ہے

اک زمانہ ہمہ تن گوش نظر آتا ہے

حسرت جلوۂ دیدار ہو پوری کیوں کر

وہ تصور میں بھی روپوش نظر آتا ہے

دیکھتے جاؤ ذرا شہر خموشاں کا سماں

کہ زمانہ یہاں خاموش نظر آتا ہے

زرد پتے تھے ہمیں اور کیا کر جانا تھا

 زرد پتے تھے ہمیں اور کیا کر جانا تھا 

تیز آندھی تھی مقابل سو بکھر جانا تھا 

وہ نہ تھا ترک تعلق پہ پشیمان تو پھر 

تم کو بھی چاہیے یہ تھا کہ مکر جانا تھا 

کیوں بھلا کچے مکانوں کا تمہیں آیا خیال 

تم تو دریا تھے تمہیں تیز گزر جانا تھا 

سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی

 سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی

لب بہ لب خواہش اظہار کہاں سے آئی

کس حنا ہاتھ سے آنگن ہے معطر اتنا

وقت خوش ساعت بیدار کہاں سے آئی

ہاں یہ ممکن ہے نیا موڑ ہو پھولوں جیسا

پھر یہ پازیب کی جھنکار کہاں سے آئی

کیسے طوفان اس سفر میں ہیں

 کیسے طوفان اس سفر میں ہیں

جیسے کچھ حادثے نظر میں ہیں

میرے بھی دل میں راکھ اڑتی ہے

تیرے بھی خواب اس اثر میں ہیں

وہ گھنا پیڑ ہو کہ سایہ طلب

آخرش سب ہی چشمِ تر میں ہیں

خرمن ہستی پہ پھر بارش رحمت کر دے

 خرمنِ ہستی پہ پھر بارشِ رحمت کر دے

دل شکستہ ہے مِرا آج سلامت کر دے

ہم پہ ٹوٹا ہے یہاں کوہِ الم اے مولا

اہم ہیں مظلوم کہ اب تھوڑی حمایت کر دے

مجھ سے معصوموں کی لاشیں نہیں دیکھی جاتیں

میری آنکھوں سے تو کافور بصارت کر دے

نہ رہزن ہوں نہ راہنما ہوں بہت برا ہوں

 نہ رہزن ہوں نہ راہنما ہوں، بہت برا ہوں

عجیب الجھن ہوں مسئلہ ہوں، بہت برا ہوں

ہمارے گاؤں میں شیر آیا نہیں کبھی بھی

میں اپنے گاؤں کا گڈریا ہوں، بہت برا ہوں

وہ جس دیے نے مکان اپنا جلا دیا تھا

حضور ہاں میں وہی دِیا ہوں، بہت برا ہوں

میں مست الست کا بھید ہوں میں مستوں میں نروان

 میں مست الست کا بھید ہوں میں مستوں میں نروان 

میں پہلا نقطہ ب کا ہوں میں الف کا ہوں استھان 

میرے رخ پر گونگھٹ میم کا میں آپ ہوں جیم جمال

میرا ماتھا فقر کا جھومر ہے میں ولیوں کا پردھان  

میرے من میں شور حقیقت کا میرے لب پر چپ کی سکھ

میرے جسم کے ٹکڑے ٹوٹ کے کریں ہُو ہُو کی گردان

گزرے چودہ سو برس نقش و نشاں محفوظ ہے

 محسن انسانیت


گزرے چودہ سو برس، نقش و نشاں محفوظ ہے

ذہن امکاں میں، حرا کی داستاں محفوظ ہے

جس پہ لکھیں، منشئ لاہوت نے آیاتِ نور

تیرے سینے میں، وہ لوحِ زر فشاں محفوظ ہے

تیری تعلیمات سے، انسانیت ہے با ثمر

مدرسے میں تیرے، حرفِ جاوداں محفوظ ہے

Saturday 12 November 2022

مرے آنگن میں بکھرے زرد پتے مجھے ہمراز لگتے ہیں

 ری انکرنیشن Reincarnation


مِرے آنگن میں بکھرے زرد پتے

مجھے ہمراز لگتے ہیں

یہ جب ہلکی ہوا کی سرسراہٹ سے لرزتے ہیں

تو یوں لگتا ہے جیسے

ان پہ کوئی بھید سا کھلنے لگا ہے

جانے کس خواب کا سیال نشہ ہوں میں بھی

 جانے کس خواب کا سیال نشہ ہوں میں بھی

اجلے موسم کی طرح ایک فضا ہوں میں بھی

ہاں دھنک ٹوٹ کے بکھری تھی مِرے بستر پر

اے سکوں لمس تِرے ساتھ جیا ہوں میں بھی

راہ پامال تھی چھوڑ آیا ہوں ساتھی سوتے

کوری مٹی کا گنہ گار ہوا ہوں میں بھی

کچے گھر کی دیواروں پر

 کچے گھر کی دیواروں پر

اپنے کچھ موہوم خیالوں کے خامے سے

نقش بناتا رہتا ہوں

کچھ بے معنی سے نقش

جنہیں منظوم کروں تو 

تاج محل کی چھوٹی سی تصویر بنے

دل مبتلائے ہجر رفاقت میں رہ گیا

 دل مبتلائے ہجر رفاقت میں رہ گیا

لگتا ہے کوئی فرق محبت میں رہ گیا

اس گھر کے دو مکین تھے اک پیڑ اور میں

یہ ہجر تو کسی کی شرارت میں رہ گیا

اک بار منع کرتی ہوئی شام سے تو پوچھ

جو بھی جدا ہوا وہ حقیقت میں رہ گیا

مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں

 مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں

کیا کہوں تم سے کہ کہنے میں دل زار نہیں

اس میں کیا ذلتِ یوسف سر بازار نہیں

سامنے تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

ہو گیا آج سے بس علم قیافہ باطل

سادگی سے یہ کھلا تھا کہ ستمگار نہیں

دھڑک گیا جو دل مرا تو اس گھڑی لگا کہ بس

 دھڑک گیا جو دل مِرا تو اس گھڑی لگا کہ بس

مِرے جنوں کا اک نظر میں وہ دیا صلہ کہ بس

میں پا بہ جولاں حد جسم و جان تک جب آ گیا

جنون خستہ پا کی پشت سے سنی صدا کہ بس

نہ. پوچھ جلوہ گاہ کی حکایتیں کرامتیں

نگاہ و دل کے درمیاں ہوا وہ معرکہ کہ بس

کبھی الفاظ خنجر تو کبھی مرہم بھی ہوتے ہیں

 کبھی الفاظ خنجر تو، کبھی مرہم بھی ہوتے ہیں

خوشی لفظوں سے ملتی ہے کبھی یہ غم بھی ہوتے ہیں

جو پی کر زہر لہجوں کا ہمیشہ مسکراتے ہیں

ذرا گر غور سے دیکھو تو یہ پُرنم بھی ہوتے ہیں

ہوا کے دوش پر رکھے دیوں کی زندگی کیا ہے

کبھی گر تیز جلتے ہیں، کبھی مدھم بھی ہوتے ہیں

دل تو جگنو ہے ستارہ نہیں ہونے والا

 دل تو جگنو ہے، ستارہ نہیں ہونے والا

اب ہمیں عشق دوبارہ نہیں ہونے والا

دل کہیں اور نکل آیا ہے، پاگل دنیا

اب یہ درویش تمہارا نہیں ہونے والا

چاہِ عُشاق پہ زم زم کا گماں ہوتا ہے

اس کا پانی کبھی کھارا نہیں ہونے والا

اب کے نہیں قصور ذرا سا ہوا کا تھا

 اب کے نہیں قصور ذرا سا ہوا کا تھا

جو بجھ گیا چراغ کسی ہمنوا کا تھا

بجلی سے قبل راکھ نشیمن وفا کا تھا

اس میں ضرور ہاتھ کسی آشنا کا تھا

کشتی نکل گئی جو تلاطم سے بارہا

اس میں کمال ماں کے دستِ دعا کا تھا

میں بے وقوف ہوں پھر بھی بنا رہا ہے مجھے

 میں بے وقوف ہوں پھر بھی بنا رہا ہے مجھے

وہ میری بھوک پکڑ کر چلا رہا ہے مجھے

کئی گروہوں کا میرے خلاف ہے گٹھ جوڑ

اور ان کا سرغنہ نغمہ سنا رہا ہے مجھے

شکم کی آگ نے خالی توا جلا ڈالا

تُو کاغذوں میں ترقی دکھا رہا ہے مجھے

یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے

 یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے

کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے

ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر

مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے

ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر

ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے

پردیس میں آنے والو سن لو اک حسیں سراب ہے یہ

 پردیس


پردیس میں آنے والو سن لو

اک حسیں سراب ہے یہ

رشتے نبھانے والو سن لو

بے حسی کا گرداب ہے یہ

پردیس میں جب آ جاؤ گے

بیٹھا ہے دل فقیر جگر بے ثمر کے ساتھ

بیٹھا ہے دل فقیر جگر بے ثمر کے ساتھ

اک بے ہنر کا ساتھ ہے اک بے ہنر کے ساتھ

ہم وہ، جو تیرے لب کی، جنبش سے ہیں جڑے

کچھ لوگ ہیں جڑے تِری دیوار و در کے ساتھ

تم، میرا خیر چاہنے والی ہو، خیر ہو

لیکن کرو قبول مجھے، میرے شر کے ساتھ

یہ ترے شہر میں سنسان سا گھر میرا ہے

 یہ تِرے شہر میں سنسان سا گھر میرا ہے

پھر یہاں طاق پہ رکھا ہوا سر میرا ہے

اس کی تصویر میں آنکھیں نہ بنیں گی تم سے

ایسی جھیلوں کو بنانے کا ہنر میرا ہے

کوئی طوفان سے لڑتا ہوا طائر تھا میں

اب تو اس پیڑ پہ لٹکا ہوا سر میرا ہے

لفظوں کے تھکے لوگ ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے

 لفظوں کے تھکے لوگ


ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے 

درد دل میں چھپا کے رکھتے ہیں

آنکھ ویراں ہے اس طرح ان کی

جیسے کچھ بھی نہیں رہا اس میں 

نہ کوئی اشک نہ کوئی سپنا

نہ کوئی غیر نہ کوئی اپنا

ہر نقش مٹا جانا جانے سے ذرا پہلے

 ہر نقش مٹا جانا جانے سے ذرا پہلے

اس گھر میں ذرا جانا جانے سے ذرا پہلے

جینے کا ہنر مجھ کو یہ دنیا سکھا دے گی

مرنے کا بتا جانا جانے سے ذرا پہلے

خط پیار بھرے اپنے اور اپنی یہ تصویریں

لو آپ جلا جانا جانے سے ذرا پہلے

Friday 11 November 2022

بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے

بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے

قدرت کے آدمی سے عجب سلسلے رہے

وہ شخص کیا ہوا جو مقابل تھا سوچیے

بس اتنا کہہ کے آئنے خاموش ہو گئے

اس آس پر کہ خود سے ملاقات ہو کبھی

اپنے ہی در پہ آپ ہی دستک دیا کئے

میری غفلتوں کی بھی حد نہیں

 کشمیری کلام سے اردو ترجمہ


میری غفلتوں کی بھی حد نہیں

تیری رحمتوں کی بھی حد نہیں

نہ میری خطا کا شمار ہے

نہ تیری عطا کا شمار ہے


للہ عارفہ/لل ایشوری/لل دید/لل ما جی


پکارا اس کو جاتا ہے جسے آواز نہ آئے

 پکارا اس کو جاتا ہے جسے آواز نہ آئے 

کہ تم تو سامنے بیٹھے ہو پھر بھی باز نہ آئے

میرا رونا تیرے رونے سے زیادہ خوبصورت ہے

کہ تیری آنکھ کو اب تک میرے انداز نہ آئے 

میرا ہسنا تیرے ہسنے سے زیادہ خوبصورت ہے

کہ تیرے منہ کو اب تک میرے انداز نہ آئے

تو ہی آ کے بتا دے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

 آخر ایسا کیوں ہوتا ہے


جان

اک تیرے جانے سے

میں اس خالی سینما ہال سا ہو جاتا ہوں

جو سرِ شام تو لوگوں سے بھرا ہوتا ہے

مگر فلم کے ختم ہوتے ہی

دیکھ موہن تری کمر کی طرف

 دیکھ موہن تِری کمر کی طرف

پھر گیا مانی اپنے گھر کی طرف

جن نے دیکھے تِرے لبِ شیریں

نظر ان کی نہیں شکر کی طرف

ہے محال ان کا دام میں آنا

دل ہے ان سب بتاں کا زر کی طرف

غم جو بکھرے تو کائنات ہوئے

 غم جو بکھرے تو کائنات ہوئے

اور سمٹے تو میری ذات ہوئے

ہم سے ہی عرض مدعا نہ ہوا

جب وہ مائل بہ التفات ہوئے

مدتوں سے دعا سلام نہیں

مدتیں ہو گئی ہیں بات ہوئے

قصہ اندھوں کی اک بستی کا

 قصہ اندھوں کی اک بستی کا


دیوتاؤں کی راجدھانی میں

کس نے قدم رکھا ہے؟

داسی یا کسی دیوی نے بہروپ بھرا ہے

جس کے قدموں کی بے باکی

 بستی والوں پرگراں گزری ہے

زندگی ایسے گزاری جا سکے

 زندگی ایسے گزاری جا سکے

درد ہو تو چیخ ماری جا سکے

حسن کی تصویر ہے یہ تو میاں

عشق میں رکھ کر سنواری جا سکے

چارہ گر احساس کی لو تیز کر

دل کی کچھ تو بیقراری جا سکے

کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے

 کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے

اک تو جو نہیں زندگی ویران بہت ہے

ملتا ہے سرِ راہ تو کتراتا ہے مجھ سے

اب اپنے کیے پہ وہ پشیمان بہت ہے

چہرے کے تأثر سے تو لگتا ہے کہ خوش ہے

گر روح میں جھانکو تو پریشان بہت ہے

کس نے پڑھ کر پھونکا منتر پانی میں

 کس نے پڑھ کر پھونکا منتر پانی میں

پتھر بن کے ڈوبے منظر پانی میں

پیاسا گھاٹ سے لوٹ آیا تھا پیاسا کیوں

مجھ پر راز کُھلا یہ جا کر پانی میں

جھیل اُمڈ کے چاند تلک جا پہنچی ہے

کس نے پھینکے اتنے کنکر پانی میں

لوگ صبح و شام کی نیرنگیاں دیکھا کیے

 لوگ صبح و شام کی نیرنگیاں دیکھا کیے

اور ہم چپ چاپ ماضی کے نشاں دیکھا کیے

عقل تو کرتی رہی دامان ہستی چاک چاک

ہم مگر دست جنوں میں دھجیاں دیکھا کیے

خنجروں کی تھی نمائش ہر گلی ہر موڑ پر

اور ہم کمرے میں تصویر بتاں دیکھا کیے

قومی یکجہتی اور ہم آہنگی

 قومی یکجہتی اور ہم آہنگی


سدا پسِ خواب بھی یہی تھا

یہی تقاضا ہے عہدِ نو کا

نئے روابط، نئی دوستی

بڑھانے کو ہم چلے ہیں

گرم ہاتھوں میں نرم رشتوں کی

مری آوارہ گردی کا زمانہ تھا

 کھلی فضا میں


مری آوارہ گردی کا زمانہ تھا

تمہارے دیدۂ بے خواب کا موسم

مِرے عزم پریشاں کا زمانہ تھا

تمہارے جذبئہ بے تاب کا موسم

مِری ندرت پسندی کا زمانہ تھا

تمہاری خواہش نایاب کا موسم

پہلے پہاڑ اس نے گرائے مری طرف

 پہلے پہاڑ اس نے گرائے مِری طرف

پھر آسماں سے ہاتھ بڑھائے مری طرف

آنکھوں سے میری درد کے چشمے ابل پڑے

بڑھنے لگے جو شام کے سائے مری طرف

اندر کے آئینوں میں دراڑیں سی پڑ گئیں

سن کر عجیب شور وہ، ہائے مری طرف

میں غمزدہ بچھڑ کے پریشان تم بھی ہو

 میں غمزدہ بچھڑ کے پریشان تم بھی ہو

دل کو مِرے اجاڑ کے ویران تم بھی ہو

میرا وجود ہو گیا جیسے کوئی کھنڈر

حالت بتا رہی ہے بیابان تم بھی ہو

رنج و الم کی دھوپ نے جُھلسا دیا ہمیں

دل میں ہمارے سائے کا ارمان تم بھی ہو

نہیں تم جو لوٹ کے آ سکے تو ذرا بھی چین ملا نہیں

 نہیں تم جو لوٹ کے آ سکے تو ذرا بھی چین مِلا نہیں

رہی تُند مے تو بہت مگر یہاں کاگ کوئی اڑا نہیں

غمِ عشق کی ہیں نوازشیں کہ یہ ماجرا بھی عجیب ہے

تھے گنوا چکے دِل و جان ہم کوئی سانحہ تو بڑا نہیں

رہا من میں اپنے ہی نقص ہے تُمہیں راستہ جو کٹھن لگا

نہ ہوا ہمِیں سے جو حق ادا ہمیں تم سے کوئی گِلہ نہیں

Thursday 10 November 2022

ہمارے خواب ٹوٹی کشتیوں کے تختے جیسے ہیں

 ہمارے خواب


ہمارے خواب ٹوٹی کشتیوں کے تختے جیسے ہیں

جو نمکیں پانیوں پر لمحہ لمحہ تیرتے ہیں

کوئی منزل نہیں ان کی جسے تعبیر کر لیں

مگر یہ عین ممکن ہے 

سمندر اپنی لہروں پر بٹھا کر ایک دن ان کو

میں بھی آنکھوں سے کبھی گنبد خضرا دیکھوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


میں بھی آنکھوں سے کبھی گنبدِ خضرا دیکھوں

آرزو ہے شہِ بطحاﷺ کا میں روضہ دیکھوں

پہلے مکے میں رہوں پھر میں مدینے جاؤں

کعبے کو دیکھ کے کعبے کا میں کعبہ دیکھوں

مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دو آقاﷺ

خاکساروں میں مِرا نام بھی لکھا دیکھوں