نہ رہزن ہوں نہ راہنما ہوں، بہت برا ہوں
عجیب الجھن ہوں مسئلہ ہوں، بہت برا ہوں
ہمارے گاؤں میں شیر آیا نہیں کبھی بھی
میں اپنے گاؤں کا گڈریا ہوں، بہت برا ہوں
وہ جس دیے نے مکان اپنا جلا دیا تھا
حضور ہاں میں وہی دِیا ہوں، بہت برا ہوں
میں اپنے اندر ہزار صدمے لیے ہوئے ہوں
میں اپنے اندر ہی چیختا ہوں، بہت برا ہوں
یہاں پہ لوگوں کو چپ لگی ہے نجانے کیونکر
میں شہر خاموش کی صدا ہوں، بہت برا ہوں
یہاں پہ لوگوں نے درجنوں بار دل لگی کی
میں اک محبت میں پھنس گیا ہوں، بہت برا ہوں
تمہاری مجھ سے جو نفرتیں ہیں بجا ہیں یارا
میں تیرے چہرے کا آئینہ ہوں، بہت برا ہوں
یہ دریا مجھ سے خفا ہیں اتنی سی بات لے کر
میں الٹی جانب کو تیرتا ہوں، بہت برا ہوں
میں اس کے ہاتھوں میں مر رہا تھا، بہت بھلا تھا
میں اپنے ہاتھوں میں جی رہا ہوں، بہت برا ہوں
یہ شاعری ہے بڑی منازل کی راہ احسن
میں اپنے قصے سنا رہا ہوں، بہت برا ہوں
احسن سلیمان
No comments:
Post a Comment