Tuesday, 22 November 2022

گریہ غبار دشت مصیبت نہیں مجھے

 گریہ، غبار، دشت مصیبت نہیں مجھے

دیوار و در سے خاص محبت نہیں مجھے

اک مختصر حیات کسی خواب کی طرح

اس پر ستم یہ خواب حقیقت نہیں مجھے

بیزار پیڑ،۔ تیز ہوا،۔ تیرگی، قفس

یعنی پرندگی کی سہولت نہیں مجھے

رکھتا نہیں ہے عکسِ ندامت کا کوئی راز

یونہی تو آئینے سے عداوت نہیں مجھے

رختِ سفر میں رکھے ہیں کچھ صبر کے چراغ

اس واسطے اندھیروں سے وحشت نہیں مجھے

کوئی بھی عمر بھر یہاں رہتا نہیں ہے ساتھ

اک روز تُو بھی چھوڑے گا، حیرت نہیں مجھے

ارشاد! جانتا ہوں میں آواز کا ہنر

خاموشیوں کے شہر سے نسبت نہیں مجھے


ارشاد نیازی

No comments:

Post a Comment