Wednesday 23 November 2022

تو مجھ کو خواب لگتا ہے کوئی مدت پرانا خواب

 تُو مجھ کو خواب لگتا ہے


تُو مجھ کو خواب لگتا ہے

کوئی مدت پرانا خواب

یادوں کی عنابی جھیل میں کنکر گراؤں تو

تِری باتیں، تِرا چہرہ تڑخ کر ٹوٹ جاتا ہے

میں ایسے بت بھلا کب تک سمیٹے سوچتا رہتا

کہ تُو بولے گا اور صدیوں پرانے چپ زدہ لمحے

مِرے بیمار منظر میں دلاسہ لے کے اتریں گے

مِری آنکھیں مِرے پس منظروں کو چھوڑ آئی ہیں

کہیں تو تھا کہیں تیرے نشانوں پر مِری بنیاد رکھی

جا چکی تھی پیار کے ہاتھوں

مگر جو وقت ہے نا

یہ بھی اک بنیاد رکھتا ہے

کبھی ایسی کہ مر کر بھی نہیں گرتا 

کوئی دیوار و در کوئی دریچہ

یا کوئی چوکھٹ

کبھی ایسی کہ 

دیواریں کھڑی ہونے سے پہلے عزم گرتا ہے

کبھی حالات کی مرضی سے گرنا 

اور پھر تقسیم ہونا جاری رہتا ہے

تُو مجھ کو خواب لگتا ہے

کوئی مدت پرانا خواب

جس پر جانے کس کس درد نے بنیاد رکھی ہے


فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment