Monday 28 November 2022

مسلسل وار کرنے پر بھی ذرہ بھر نہیں ٹوٹا

 مسلسل وار کرنے پر بھی ذرہ بھر نہیں ٹوٹا 

میں پتھر ہو گیا لیکن تِرا خنجر نہیں ٹوٹا 

تِرے ٹکرے مِری کھڑکی کے شیشوں سے زیادہ ہیں 

نصیب اچھا ہے میرا تو مِرے اندر نہیں ٹوٹا 

مجھے برباد کرنے تک ہی اس کے آستاں ٹوٹے 

مرا دل ٹوٹنے کے بعد اُس کا گھر نہیں ٹوٹا 

طلسمِ یار میں جب بھی کمی آئی، نمی آئی 

ان آنکھوں میں جنہیں لگتا تھا جادوگر نہیں ٹوٹا 

سروں پر آسماں ہاتھوں سے آئینے نظر سے دل 

بہت کچھ ٹوٹ سکتا تھا بہت کچھ پر نہیں ٹوٹا 

ہم اس کا غم بھلا قسمت پہ کیسے ٹال سکتے ہیں 

ہمارے ہاتھ میں ٹوٹا ہے وہ گر کر نہیں ٹوٹا 

تیرے بھیجے ہوئے تیشوں کی دھاریں تیز تھیں حافی 

مگر ان سے یہ کوہِ غم زیادہ تر نہیں ٹوٹا 


تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment