Thursday, 24 November 2022

دشت دل میں دور تک اب کوئی صدا نہیں

 دشتِ دل میں دور تک اب کوئی صدا نہیں

کوئی آرزو نہیں،۔ کوئی سلسلہ نہیں

آنکھ کے دیار سے غم کے ریگزار تک

تجھ کو ڈھونڈتے رہے، تُو مگر ملا نہیں

آپ کب غلط ہوئے؟ میں ہی بدگمان ہوں

آپ تو خدا ہوئے،۔ آپ سے گِلہ نہیں

پیکرِ ملال ہوں،۔ نقشِ پائمال ہوں

درد سے نڈھال ہوں، پاس کچھ بچا نہیں

جس میں میرا عکس ہو، میرا نقش نقش ہو

کوئی آئینہ نہیں،۔ کوئی زائچہ نہیں

رہگزارِ شوق سے ساکنانِ غم تِرے

جی جلا کے چل پڑے، اک دِیا جلا نہیں

ایک وحشتِ جنوں، ایک سوزشِ دروں

تیرے مبتلاؤں کو اور کچھ ملا نہیں


آفتاب باسم

No comments:

Post a Comment