ہم ان کی نظر میں بھی اداکار ہوئے ہیں
جو لوگ ہمیں دیکھ کر فنکار ہوئے ہیں
ہم یوں ہی نہیں شہ کے عزادار ہوئے ہیں
نسلی ہیں سو اصلی کے پرستار ہوئے ہیں
تہمت تو لگا دیتے ہو بے کاری کی ہم پر
پوچھو تو صحیح کس لیے بیکار ہوئے ہیں
یہ وہ ہے جنہیں میں نے سخن کرنا سکھایا
یہ لہجے میرے سامنے تلوار ہوئے ہیں
ہجرت سے سند یافتہ دروازے کے آگے
یہ کون کمینے ہیں؟ جو دیوار ہوئے ہیں
سب آ کے مجھے کہتے ہیں مرشد کوئی چارہ
جس جس کو در یار سے انکار ہوئے ہیں
ملنے تو اکیلے ہی اسے جانا ہے زریون
یہ دوست مگر کس لیے تیار ہوئے ہیں
علی زریون
No comments:
Post a Comment