Tuesday 22 November 2022

ہم ان کی نظر میں بھی اداکار ہوئے ہیں

 ہم ان کی نظر میں بھی اداکار ہوئے ہیں

جو لوگ ہمیں دیکھ کر فنکار ہوئے ہیں

ہم یوں ہی نہیں شہ کے عزادار ہوئے ہیں

نسلی ہیں سو اصلی کے پرستار ہوئے ہیں

تہمت تو لگا دیتے ہو بے کاری کی ہم پر

پوچھو تو صحیح کس لیے بیکار ہوئے ہیں

یہ وہ ہے جنہیں میں نے سخن کرنا سکھایا

یہ لہجے میرے سامنے تلوار ہوئے ہیں

ہجرت سے سند یافتہ دروازے کے آگے

یہ کون کمینے ہیں؟ جو دیوار ہوئے ہیں

سب آ کے مجھے کہتے ہیں مرشد کوئی چارہ

جس جس کو در یار سے انکار ہوئے ہیں

ملنے تو اکیلے ہی اسے جانا ہے زریون

یہ دوست مگر کس لیے تیار ہوئے ہیں


علی زریون

No comments:

Post a Comment