حق کے بندے کہیں لا پتہ ہو گئے
جتنے جھوٹے تھے سب دیوتا ہوں گئے
کان میں ان کے ہم نے وہ سب کہہ دیا
جس کو سنتے ہی عارض حنا ہو گئے
خوب سیرِ گلستانِ دل ہم نے کی
ان کی آنکھوں کے جب باب وا ہو گئے
جلوۂ شعلۂ طور کی دید ہو
اتنا سنتے ہی آتش کدہ ہو گئے
سر جھکانے وہ سوئے حرم کیا گئے
پارساؤں میں فتنے بپا ہو گئے
کل تو قہرِ نظر نے کیا مضطرب
آج لیکن نشہ ہی نشہ ہو گئے
بولنے سے کہیں باز آتے نہیں
ساز! تم تو نِرا مسئلہ ہو گئے
ساز دہلوی
No comments:
Post a Comment