Wednesday, 23 November 2022

حق کے بندے کہیں لا پتہ ہو گئے

حق کے بندے کہیں لا پتہ ہو گئے

جتنے جھوٹے تھے سب دیوتا ہوں گئے

کان میں ان کے ہم نے وہ سب کہہ دیا

جس کو سنتے ہی عارض حنا ہو گئے

خوب سیرِ گلستانِ دل ہم نے کی

ان کی آنکھوں کے جب باب وا ہو گئے

جلوۂ شعلۂ طور کی دید ہو

اتنا سنتے ہی آتش کدہ ہو گئے

سر جھکانے وہ سوئے حرم کیا گئے

پارساؤں میں فتنے بپا ہو گئے

کل تو قہرِ نظر نے کیا مضطرب

آج لیکن نشہ ہی نشہ ہو گئے

بولنے سے کہیں باز آتے نہیں

ساز! تم تو نِرا مسئلہ ہو گئے


ساز دہلوی

No comments:

Post a Comment