Saturday, 26 November 2022

کوئی غمگیں کوئی خوش ہو کر صدا دیتا رہا

 کوئی غمگیں، کوئی خوش ہو کر صدا دیتا رہا

رات شہرِ دل💝 کا ہر منظر صدا دیتا رہا

سنگساری کی سزا ٹھہری تھی جن کے واسطے

ان کو پہلے ہی سے ہر پتھر صدا دیتا رہا

میرے کربِ تشنگی پر رات شیشے رو پڑے

خشک ہونٹوں کو مِرے ساغر صدا دیتا رہا

نشۂ صحرا نوردی میں تجھے کب ہوش تھا

تجھ کو شہرِ گل کا اک اک گھر صدا دیتا رہا

کھو گئی جب آنکھ نجمی یاد آیا خواب میں

ہم کو شاید اک پری پیکر صدا دیتا رہا


حسن نجمی سکندرپوری

No comments:

Post a Comment