بیمارِ غم کا کوئی مداوا نہ کیجیے
یعنی ستمگری بھی گوارا نہ کیجیے
رسوائی ہے تو یہ بھی گوارا نہ کیجیے
یعنی پسِ خیال بھی آیا نہ کیجیے
ظرف نگاہ چاہیے دیدار کے لیے
رخ کو پسِ نقاب چھپایا نہ کیجیے
دل شوق سے جلائیے انکار ہے کسے
لیکن جلا جلا کے بُجھایا نہ کیجیے
پردہ نگاہ کا ہے تو کیسی خصوصیت
اپنی نگاہِ ناز سے پردا نہ کیجیے
کل غیر کی گلی میں قیامت کا ذکر تھا
شرمائیے حضور! بہانا نہ کیجیے
بس آپ کا ستم ہی کرم ہے مِرے لیے
للہ غیر سے مجھے پوچھا نہ کیجیے
پابندئ وفا ہے تو پھر مدعا سے کام
مر جائیے، کسی کی تمنا نہ کیجیے
طالب حدیث عشق توجہ طلب سہی
یوں داستاں بنا کے سنایا نہ کیجیے
طالب باغپتی
No comments:
Post a Comment