دستِ قاتل کو اگر خاص ادا دی جائے
پھر پسِ مرگ نہ منصف کو صدا دی جائے
درد مسکے گا تو گلزار کرے گا دل کو
ٹوٹتے رشتوں کو اے دوست دعا دی جائے
پھر جلا ڈالیں گے یادوں کے سنہرے بن کو
اب نہ شعلوں کو سرِ شام ہوا دی جائے
ان کے رک جاتے ہی رک جائے گی نبضِ ہستی
لوٹتے قدموں کو اے دوست دعا دی جائے
دل بھی اب شہر کی مانند ہوا کرتا ہے
رات ہوتے ہی ہر اک بات بھلا دی جائے
آؤ رکھ دیں کسی تابندہ سی تہذہب کی نیو
عہدِ کہنہ کی ہر اک رسم مٹا دی جائے
قہر سے ہر نئی رُت کے جو بچا لے انجم
ایک اک سر کو اب اک ایسی ردا دی جائے
رفیق انجم
No comments:
Post a Comment