عجیب بات یہ ہوئی کہ ساتھ بھی نہیں رہے
ہمارے ہاتھ اب ہمارے ہاتھ بھی نہیں رہے
وہ زندگی گزارنے کی بات کر رہے تھے اور
ہمارے پاس آئے، ایک رات بھی نہیں رہے
کچھ اس طرح چھپاؤ میں کہیں دکھائی بھی نہ دوں
کچھ اس طرح مٹاؤ میری بات بھی نہیں رہے
ہمارا دن بچھڑ گیا، کوئی خوشی نہیں ملی
اداسیاں بھی چھین لو کہ رات بھی نہیں رہے
نئی روایتوں میں ڈھل رہی ہے میری نسلِ نو
کزن جو بن رہے تھے اب مسات بھی نہیں رہے
تمہارے دکھ محبتیں،۔ ہمارے دکھ روایتیں
شجر بھی سب اکھڑ گئے ہیں پات بھی نہیں رہے
طلب تمہاری خیر تھی، تمہیں تلاشِ ذات تھی
اور آج تم تو صاحبِ صفات بھی نہیں رہے
ہمیشگی کے شوق میں عجیب حال ہے کہ ہم
دوام بھی نہیں رہے، ثبات بھی نہیں رہے
ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment