Monday 28 November 2022

طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے

 طاق ماضی میں جو رکھے تھے سجا کر چہرے

لے گئی تیز ہوا غم کی اڑا کر چہرے

جن کے ہونٹوں پہ طرب خیز ہنسی ہوتی ہے

وہ بھی روتے ہیں کتابوں میں چھپا کر چہرے

کرب کی زرد تکونوں میں کئی ترچھے خطوط

کس قدر خوش تھا میں کاغذ پہ بنا کر چہرے

مؤ قلم لے کے مِرے شہر کی دیواروں پر

کس نے لکھا ہے تِرا نام مٹا کر چہرے

لوگ پھرتے ہیں بھرے شہر کی تنہائی میں

سرد جسموں کی صلیبوں پہ اٹھا کر چہرے


نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment