Tuesday, 29 November 2022

دکھ کی سرپرستی میں اور نیازمندی میں

 دکھ کی سر پرستی میں اور نیازمندی میں

جھک رہا تھا میرا سر اک طرف بلندی میں

ڈھونڈنے سے کیا ملتے نقص آپ لوگوں کو

بھولی بھالی صورت میں، سیدھی سادی بندی میں

میں تو شاعرہ ہوں آپ حسن سے وفا کر لیں

آپ کو ملے گا کیا گونگی، بہری، اندھی میں

کر دیں ہر منافع کو کچھ دنوں تلک موقوف

اصل مال ہی بیچیں منڈیوں کی مندی میں

ورنہ دو قدم پر ہی ٹوٹتا طلسم اس کا

ہم نے جلد بازی کی کارِ خود پسندی میں

امتحان ہوتا گر شہر کے غریبوں پر

اول آتا اپنا دل، دکھ میں، درد مندی میں

پھینکتا ہے جال اپنا سب سمیٹ لیتا ہے

سو طرح کے گر بھی ہیں اس برے کمندی میں

ماہرِ محبت نے بے رُخی چکھی اک دن

اور وہ پسند آیا سخت ناپسندی میں

اس کی سرد مہری میں اک الگ تھی انسیت

اک عجب کشش سی تھی اس کی زہر خندی میں


حنا عنبرین

No comments:

Post a Comment