Friday, 25 November 2022

قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے

 قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے 

سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے 

ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف 

دیکھیے تو اک حقیقت سوچیے تو راز ہے 

ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا 

چند سکوں کے لیے بچہ بڑا جانباز ہے

سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں 

جانتا ہوں کس میں کتنی قوت پرواز ہے 

کس طرح ہو گا بیاں حال دل بیمار اب 

آسماں برہم ہے اور خاموش چارہ ساز ہے 

دور آیا ہے عجب انجم یہاں ہشیار باش 

زاغ ہے مخدوم اور خادم یہاں شہباز ہے 


مشتاق انجم

No comments:

Post a Comment