قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے
ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف
دیکھیے تو اک حقیقت سوچیے تو راز ہے
ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا
چند سکوں کے لیے بچہ بڑا جانباز ہے
سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں
جانتا ہوں کس میں کتنی قوت پرواز ہے
کس طرح ہو گا بیاں حال دل بیمار اب
آسماں برہم ہے اور خاموش چارہ ساز ہے
دور آیا ہے عجب انجم یہاں ہشیار باش
زاغ ہے مخدوم اور خادم یہاں شہباز ہے
مشتاق انجم
No comments:
Post a Comment