Tuesday, 22 November 2022

مجھے جینا نہیں آتا تجھے جینا نہیں آتا

 مجھے جینا نہیں آتا

میں جیسے درد کا موسم

گھٹا بن کر جو بس جاتا ہے آنکھوں میں

دھنک کے رنگ خوشبو نذر کرنے کی تمنا 

لے کے جس منظر تلک جاؤں

سیہ اشکوں کے گہرے کہر میں ڈوبا ہوا پاؤں

میں اپنے دل کا سونا

پیار کے موتی

ترستی آرزو کے پھول جس در پر سجاتا ہوں

وہاں جیسے مکیں ہوتا نہیں کوئی

بنا ہوں ایک مدت سے صدائے بازگشت ایسی

جو دیواروں سے ٹکرائے

ہراساں ہو کے لوٹ آئے

دھڑکتے دل کے سونے پن کو سونا اور کر جائے

میں اپنے آپ کو سنتا ہوں

اپنے آپ کو چھوتا ہوں

اپنے آپ سے ملتا ہوں خوابوں کے سہانے آئینہ گھر میں

تو میرا عکس مجھ پر مسکراتا ہے

یہ کہتا ہے

سلیقہ تجھ کو جینے کا نہ آنا تھا نہیں آیا

صدائیں پتھروں کی طرح مجھ پر

میرے خوابوں کے بکھرتے آئینہ گھر پر برستی ہیں

ادھر تارا، ادھر جگنو

کہیں اک پھول کی پتی کہیں شبنم کا اک آنسو

بکھر جاتا ہے سب کچھ روح کے سنسان صحرا میں

میں پھر سے زندگی کرنے کے ارماں میں

اک اک ریزے کو چنتا ہوں سجاتا ہوں 

نئی مورت بناتا ہوں

دھنک کے رنگ خوشبو نذر کرنے کی تمنا میں 

قدم آگے بڑھاتا ہوں

تو اک بے نام گہری دھند میں سب ڈوب جاتا ہے

کسی سے کچھ شکایت ہے نہ شکوہ ہے

کہ میں تو درد کا موسم ہوں

اپنے آپ میں پلتا ہوں اپنے آپ میں جیتا ہوں

اپنے آنسوؤں میں بھیگتا ہوں مسکراتا ہوں

مگر سب لوگ کہتے ہیں

تجھے جینا نہیں آتا


بشر نواز 

No comments:

Post a Comment