یہ تم پہ منحصر تھا کہ یا تو ڈر کر بدل لیتے
کہانی کے کسی انجام کو مر کر بدل لیتے
محبت اک شجر ہے جو دلوں کا آشیانہ ہے
شجر جب سُوکھ جاتے تو پرندے در بدل لیتے
جہاں ہم تھے وہیں ٹھہرے، رسائی تم کو دی ورنہ
تِرے آنے سے پہلے ہم یہ اپنا گھر بدل لیتے
وہ رب سب جانتا ہے دوست سارا جھوٹ سچ ورنہ
یہ بندے تو خدا کی بات سر محشر بدل لیتے
جو کاتب ہے نصیبوں کا یہ اس نے کُن کہا ہو گا
خدا کا حکم نہ ہوتا قمر محور بدل لیتے
بغاوت کر سکے نہ تم یہ تم کو کون سمجھاتا
کہ ڈرنے خوف کھانے سے نہیں لشکر بدل لیتے
قبا ہم بھی پہن لیتے بظاہر نیک بننے کی
دلوں کے میل کب چُھپتے اگر ظاہر بدل لیتے
مشال مراد
No comments:
Post a Comment