Monday 21 November 2022

یہ تم پہ منحصر تھا کہ یا تو ڈر کر بدل لیتے

 یہ تم پہ منحصر تھا کہ یا تو ڈر کر بدل لیتے

کہانی کے کسی انجام کو مر کر بدل لیتے

محبت اک شجر ہے جو دلوں کا آشیانہ ہے

شجر جب سُوکھ جاتے تو پرندے در بدل لیتے

جہاں ہم تھے وہیں ٹھہرے، رسائی تم کو دی ورنہ

تِرے آنے سے پہلے ہم یہ اپنا گھر بدل لیتے

وہ رب سب جانتا ہے دوست سارا جھوٹ سچ ورنہ

یہ بندے تو خدا کی بات سر محشر بدل لیتے

جو کاتب ہے نصیبوں کا یہ اس نے کُن کہا ہو گا

خدا کا حکم نہ ہوتا قمر محور بدل لیتے

بغاوت کر سکے نہ تم یہ تم کو کون سمجھاتا

کہ ڈرنے خوف کھانے سے نہیں لشکر بدل لیتے

قبا ہم بھی پہن لیتے بظاہر نیک بننے کی

دلوں کے میل کب چُھپتے اگر ظاہر بدل لیتے


مشال مراد

No comments:

Post a Comment