Monday, 21 November 2022

ہے مبتلا یہ دل مرا کب سے عذاب میں

 ہے مبتلا یہ دل مِرا کب سے عذاب میں

جینا محال ہو گیا ہے اضطراب میں

شوقِ جنوں کی راہ بھی کتنی عجیب ہے

چلتا ہی جا رہا ہوں مسلسل سراب میں

پوچھا تھا اک فقیر سے مفہوم عشق کا

خونِ جگر نکال کے رکھا جواب میں

دیکھا ہے جب سے تیرے رُخِ پُر جمال کو

امید جاگ اٹھی دلِ خانہ خراب میں

خوشبو کسی گلاب کی تھی پیرہن مِرے

کل شب کسی گلاب کو دیکھا جو خواب میں

کس کس گناہ کا میں خدایا! حساب دوں؟

دفتر بڑھا گیا ہوں میں عہدِ شباب میں

ٹُوٹا کبھی نہیں یہ اذیت کا سلسلہ

کچھ تو قصور تھا مِرے ہی انتخاب میں


محسن کشمیری

No comments:

Post a Comment