سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہو گا
موم کے شہر سے سورج کا گزر کب ہو گا
خواب کاغذ کے سفینے ہیں بچائیں کیسے
ختم اس آگ کے دریا کا سفر کب ہو گا
جس کا نقشہ ہے مِرے ذہن میں اک مدت سے
گھر وہ تعمیر سے پہلے ہی کھنڈر کب ہو گا
میرے کھوئے ہوئے محور پہ جو پہنچائے مجھے
اب لہو میں مِرے پیدا وہ بھنور کب ہو گا
سبز رکھا ہے جسے میں نے لہو دے کے قمر
مہرباں دھوپ میں آخر وہ شجر کب ہو گا
قمر اقبال
No comments:
Post a Comment