Wednesday, 30 November 2022

سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہو گا

 سب پگھل جائے تماشہ وہ ادھر کب ہو گا 

موم کے شہر سے سورج کا گزر کب ہو گا 

خواب کاغذ کے سفینے ہیں بچائیں کیسے 

ختم اس آگ کے دریا کا سفر کب ہو گا 

جس کا نقشہ ہے مِرے ذہن میں اک مدت سے 

گھر وہ تعمیر سے پہلے ہی کھنڈر کب ہو گا 

میرے کھوئے ہوئے محور پہ جو پہنچائے مجھے 

اب لہو میں مِرے پیدا وہ بھنور کب ہو گا 

سبز رکھا ہے جسے میں نے لہو دے کے قمر

مہرباں دھوپ میں آخر وہ شجر کب ہو گا


قمر اقبال

No comments:

Post a Comment