Friday, 18 November 2022

سنا ہے اس کو سخن کے اصول آتے ہیں

سنا ہے اس کو سخن کے اصول آتے ہیں

کرے کلام تو باتوں میں پھول آتے ہیں

سنا ہے سحر میں اس کے ہیں مبتلا سارے

جب اس سے ملتے ہیں تو ہوش بھول آتے ہیں

سنا ہے کِھلتے ہیں ان کے مزاج گل کی طرح

تمہاری بزم میں جو دل ملول آتے ہیں

سنا ہے اس کے پڑھانے میں ہے مٹھاس ایسی

بخار ہو بھی تو بچے سکول آتے ہیں

سنا ہے اس کی طرف دوڑتی ہے خود منزل

بدن پہ لے کے جو رستے کی دھول آتے ہیں

بجھا چکا ہوں میں کب کا چراغِ شب مشتاق

ہوا کے جھونکے مِرے گھر فضول آتے ہیں


حبیب الرحمٰن مشتاق

حبیب الرحمان مشتاق

No comments:

Post a Comment