موت
کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو
مطلب کا میرے جیسے کوئی قافیا نہ ہو
گلدان میں سجا کے ہیں ہم لوگ کتنے خوش
وہ شاخ ایک پھول بھی جس پر نیا نہ ہو
ہر لمحہ وقت کا ہے بس اک غنچۂ بخیل
مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو
اب لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں
پیش نگاہ جیسے کوئی آئینہ نہ ہو
وحشی ہوا کی روح تھی دیوار و در میں رات
جنگل کی سمت کوئی دریچہ کھلا نہ ہو
راج نرائن راز
No comments:
Post a Comment