Sunday, 27 November 2022

مری حیات یہ ہے اور یہ تمہاری قضا

 مرحوم اور محروم


مِری حیات یہ ہے اور یہ تمہاری قضا

زیادہ کس سے کہوں اور کس کو کم، بولو

تم اہلِ خانہ رہے،۔ اور میں یتیم ہوا

تمہارا درد بڑا ہے یا میرا غم، بولو؟

تمہارا دور تھا گھر میں بہار ہنستی تھی

ابھی تو در پہ فقط رنج و غم کی دستک ہے

تمہارے ساتھ کا موسم بڑا حسین رہا

تمہارے بعد کا موسم بڑا بھیانک ہے 

ہزاروں قرض تھے مجھ پر تمہاری الفت کے

مجھے وہ قرض چکانے کا موقع تو دیتے

تمہارا خون میرے جسم میں مچلتا رہا

ذرا سے قطرے بہانے کا موقع تو دیتے

بڑے سکون سے تم سو گئے وہاں جا کر

یہ کیسے نیند تمہیں آ گئی نئے گھر میں

ہر ایک شب میں فقط کروٹیں بدلتا ہوں

تمہاری قبر کے کنکر ہوں جیسے بستر میں

میں بوجھ کاندھوں پہ ایسے اٹھا کے چلتا ہوں

تمہارا جیسے جنازہ اٹھا کے چلتا تھا

یہاں پہ میری پریشانی صرف میری ہے

وہاں کوئی نہ کوئی کاندھا تو بدلتا تھا

تمہاری شمعِ تمنا بس ایک رات بجھی

چراغ میری توقع کے روز بجھتے ہیں

میں سانس لوں بھی تو کیسے کہ میری سانسوں میں

تمہاری ڈوبتی سانسوں کے تیر چبھتے ہیں

میں جب بھی چھوتا ہوں اپنے بدن کی مٹی کو

تو لمس پھر اسی ٹھنڈے بدن کا ہوتا ہے

لباس روز بدلتا ہوں میں بھی سب کی طرح

مگر خیال تمہارے کفن کا ہوتا ہے

بہت طویل کہانی ہے میری ہستی کی

تمہاری موت تو اک مختصر فسانہ ہے

وہ جس گلی سے جنازہ تمہارا نکلا تھا

اسی گلی سے مِرا روز آنا جانا ہے

میں کوئی راہ ہوں تم راہ دیکھنے والے

کہ منتظر تو مِرا پر نہ انتظار مِرا

تمہاری موت مِری زندگی سے بہتر ہے

تم ایک بار مِرے میں تو بار بار مِرا


زبیر تابش 

No comments:

Post a Comment