Thursday, 24 November 2022

جاتے جاتے لب فریاد بھی لیتے جاتے

 جاتے جاتے لبِ فریاد بھی لیتے جاتے

یاد کیوں چھوڑ گئے یاد بھی لیتے جاتے

مجھے معلوم تھا مطلب کے ہی فنکار ہو تم

سو اس ہنر کی ذرا داد ہی لیتے جاتے

ہم شرافت میں تِرے حسن کے ناظر ہی رہے

ورنہ تھوڑا سا تو پرساد ہی لیتے جاتے

آخری وقت گھڑی بھر کو ذرا رُک جاتے

اور اپنا آپ مِرے بعد ہی لیتے جاتے

بڑی حسرت تھی تِرے ساتھ کسی پل رُک کر

تِری خوشبو، تِری آواز ہی لیتے جاتے

عجیب لگ رہا ہے اس طرح جانا مجھ کو

دِلِ ناشاد کو ناشاد ہی لیتے جاتے

ساز و آواز گئے، رنگ اور انداز گیا

علی! تم ساتھ یہ الفاظ بھی لیتے جاتے


علی سرمد

No comments:

Post a Comment