Sunday, 27 November 2022

کچھ اس لیے مجھے لٹنے کا ڈر زیادہ ہے

کچھ اس لیے مجھے لُٹنے کا ڈر زیادہ ہے

ذرا سی ہے مِری دیوار، در زیادہ ہے

یہ راستہ تو مِرا ساتھ دے نہیں سکتا

میں جانتا ہوں کہ میرا سفر زیادہ ہے

عجب علاج کِیا ہے مِرے مسیحا نے

مِرے مرض سے دوا کا اثر زیادہ ہے

میں بولتا تھا کہ مجھ کو نہیں تھا کچھ معلوم

میں چُپ ہوا ہوں کہ مجھ کو خبر زیادہ ہے

میں دیکھنے کی حدوں سے نکل کے دیکھتا ہوں

مِری نگاه سے میری نظر زیادہ ہے

میں رکھ سکا نہ توازن اُڑان میں قائم

میرے پروں میں کہیں ایک پر زیادہ ہے

خدا کرے کہ ہمیشہ مجھے گُمان رہے

کہ میرے پاس ضرورت سے زر زیادہ ہے

مِرے وطن کا یہی مسئلہ رہا عاصم

یہاں دماغ ہے کم اور سر زیادہ ہے


صباحت عاصم واسطی

No comments:

Post a Comment