Tuesday 22 November 2022

شبوں کے دیس میں ہم کس بنا پہ ڈٹ جاتے

 شبوں کے دیس میں ہم کس بنا پہ ڈٹ جاتے

جہاں چراغ 🪔 جلانے پہ ہاتھ کٹ جاتے

کلائی کاٹ کے سوئی ہے چین سے لڑکی

💢اگر نہ کاٹتی دو خاندان کٹ جاتے💢

خوشی سے پھول گئے تھے یہ بھول کرتے ہوئے

💔اگر اداس نہ ہوتے تو لوگ پھٹ جاتے

وہ خشک لب جو تھرکتے تو مختلف پانی

سمندروں سے بھی دریاؤں میں پلٹ جاتے

🌌خدا بدن نہیں رکھتا وگرنہ یہ عاصی

جہاں بھی دیکھتے بے ساختہ لپٹ جاتے

تڑپ تڑپ کے بگاڑی ہے ہم نے لاش اپنی

تو کاٹتا تو بڑی عمدگی سے کٹ جاتے


راکب مختار

No comments:

Post a Comment