Saturday 26 November 2022

مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے

 مِری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے

وہ میرے سائے کو مجھ سے جدا دکھاتا ہے

بس ایک پل میں مٹا دیں گی سر پھری موجیں

گھروندے ریت کے ساحل پہ کیوں بناتا ہے

فضا میں کمرے کی پھیلی ہوئی ہے اک خوشبو

یہ کون آ کے کتابیں مِری سجاتا ہے

یہی ملا ہے صِلہ مجھ کو حق پرستی کا

کہ وقت نیزے پہ سر کو مِرے اٹھاتا ہے

میں اس کے عشق میں ایسے مقام پر ہوں جہاں

اسی کا عکس ہر اک آئینہ دکھاتا ہے


رشید الظفر

No comments:

Post a Comment