Wednesday 23 November 2022

میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے

میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے

مِرے پروں کو ہوا کیا اڑان سے پہلے

مِرے نصیب میں رستوں کی دھول لکھی تھی

نہ مل سکی مجھے منزل تکان سے پہلے

یہ کون شخص تھا چالاک کس قدر نکلا

کہ بات چھیڑ گیا درمیان سے پہلے

میں اس کے درد کا درماں تو جانتا تھا مگر

وہ کچھ تو بولتا اپنی زبان سے پہلے

تم اس کے گھر کی طرف چل پڑے تو ہو لیکن

کوئی پڑاؤ نہیں آسمان سے پہلے

کھڑا ہوں آج میں انجم یقیں کی سرحد پر

عجیب کرب میں گم تھا گمان سے پہلے 


آنند سروپ انجم

No comments:

Post a Comment