Saturday 19 November 2022

دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے

 دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے

بستی پیچھے رہ جائے گی آگے آگے صحرا ہے

ایک ذرا سی بات پہ اس نے دل کا رشتہ توڑ دیا

ہم نے جس کا تنہائی میں برسوں رستہ دیکھا ہے

پیار محبت آہ و زاری لفظوں کی تصویریں ہیں

کس کے پیچھے بھاگ رہے ہو دریا بہتا رہتا ہے

پھول پرندے خوشبو بادل سب اس کا سایہ ٹھہرے

اس نے جب سے آئینے میں غور سے خود کو دیکھا ہے

مجھ کو خوشبو ڈھونڈنے آئے مِرے پیچھے چاند پھرے

آج ہوا نے مجھ سے پوچھا، کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟

کل جو میں نے جھانک کے دیکھا اس کی نیلی آنکھوں میں

اس کے دل کا زخم تو ماجد! ساگر سے بھی گہرا ہے


حسین ماجد

No comments:

Post a Comment