فرض کرو تن کوزہ ہو اور اس میں کڑوا پانی ہو
اور پھر یہ محسوس کرو یہ پیاس نہیں عُریانی ہو
فرض کرو تم وحشی ہو اور دشت کا بندوبست نہیں
کچھ سوندھے باغات ہوں اور اک تنہا رات کی رانی ہو
فرض کرو سناٹے کی دو آنکھیں ہوں اور روشن ہوں
دو آنکھیں ہوں، اور ان میں آوازے کی حیرانی ہو
فرض کرو اک شیشے جیسا جسم چُنوں اور سو جاؤں
بستر کی ہر سلوٹ میرے پہلو کی نادانی ہو
فرض کرو یہ دنیا میری جیب کے اندر مر جائے
دُکانوں پر بھیڑ نے جیسے اندھی آگ چُرانی ہو
علی زیرک
No comments:
Post a Comment