Monday, 21 November 2022

فرض کرو تن کوزہ ہو اور اس میں کڑوا پانی ہو

 فرض کرو تن کوزہ ہو اور اس میں کڑوا پانی ہو

اور پھر یہ محسوس کرو یہ پیاس نہیں عُریانی ہو

فرض کرو تم وحشی ہو اور دشت کا بندوبست نہیں

کچھ سوندھے باغات ہوں اور اک تنہا رات کی رانی ہو

فرض کرو سناٹے کی دو آنکھیں ہوں اور روشن ہوں

دو آنکھیں ہوں، اور ان میں آوازے کی حیرانی ہو

فرض کرو اک شیشے جیسا جسم چُنوں اور سو جاؤں

بستر کی ہر سلوٹ میرے پہلو کی نادانی ہو

فرض کرو یہ دنیا میری جیب کے اندر مر جائے

دُکانوں پر بھیڑ نے جیسے اندھی آگ چُرانی ہو


علی زیرک

No comments:

Post a Comment