Monday 21 November 2022

ترے لہو نے غبار گماں کو صاف کیا

 تِرے لہو نے غبارِ گُماں کو صاف کیا

تِری نظر پہ حقیقت نے انکشاف کیا

شکستہ جسم تِری قبلہ گاہی پر میں نثار

بدن دریدہ فرس نے تِرا طواف کیا

بکھر گیا تھا سرِ دشت کوئی مصحفِ گل

ہوا نے ریت کو ہر برگ کا غلاف کیا

یہ خاندانی روایت تھی حق شعاری کی

علی کے بیٹے نے کثرت سے اختلاف کیا

ستم رسیدہ تھے لیکن انا گزیدہ نہ تھے

گناہ گار کو بھائی کہا،۔ معاف کیا

سنے جو شاہ کے ہونٹوں سے صبر کے احکام

پھر ایک خیمے میں غیرت نے اعتکاف کیا

وہ جس کے زخموں سے ہوتا رہا ہوا کا گزر

اسی کے ذکر نے ہر سنگ میں شگاف کیا

ہے ممکنات پہ قادر حسینؑ ابنِ علیؑ

بوقتِ عصر مشیت نے اعتراف کیا

جو آ ملا اسے شہ نے خوش آمدید کیا

اور اس کو جانے دیا جس نے انحراف کیا


عدنان محسن

No comments:

Post a Comment