Monday 21 November 2022

درد کی رات پھر آ گئی

 شہر اور زنجیر


درد کی رات پھر آ گئی

میرے پاؤں کی زنجیر پھر جانے مجھ کو کہاں لے چلے گی

کبھی شہر کی نیم روشن سی ویران گلیاں

خمیدہ سی دیوار کے سائے سائے

میں پاؤں میں کنکر چبھوتا چلوں گا

کبھی چوڑی چکنی سی بل کھاتی سڑکوں کی

ہنستی ہوئی رونقوں میں

سلگتی ہوئی خوشبوؤں کی جنوں خیز لہروں کے ریلے میں

بے بس اڑوں گا کھلی پارکوں میں

درختوں کے چمکیلے پتوں پہ

گرتی ہوئی روشنی میں

کبھی چاند کے نیلگوں سائے میں بیٹھ کر

درد کے تیز کانٹے نکالوں گا چپ چاپ

بجھتی ہوئی رات کے آخری پہر میں

سونے بستر کی ڈستی ہوئی ناگنوں پر

میں بھوکے بدن کو رلاتا رہوں گا


سلیم الرحمٰن

No comments:

Post a Comment