Wednesday, 23 November 2022

الجھا اور مقسوم رہا ہے یاد کا پنچھی

 الجھا اور مقسوم رہا ہے یاد کا پنچھی

یوں کچھ دن مغموم رہا ہے یاد کا پنچھی

وصل کے لمحے داب کے پنجوں میں دکھ سے چُور

جنگل جنگل گھوم رہا ہے یاد کا پنچھی

وحشت بڑھنے پر اتنا بے چین ہوا ہے

ورنہ تو معصوم رہا ہے یاد کا پنچھی

برسوں بعد اماوس میں برسات ہوئی ہے

اس کارن ہی جھوم رہا ہے یاد کا پنچھی

تنہا برسوں زرد اداسی کی زد میں تھا

اتنا تو مظلوم رہا ہے یاد کا پنچھی

جِن پیڑوں پر ہم نے مل کر نام لکھا تھا

ان پیڑوں کو چوم رہا ہے یاد کا پنچھی


شوزب حکیم

No comments:

Post a Comment