الجھا اور مقسوم رہا ہے یاد کا پنچھی
یوں کچھ دن مغموم رہا ہے یاد کا پنچھی
وصل کے لمحے داب کے پنجوں میں دکھ سے چُور
جنگل جنگل گھوم رہا ہے یاد کا پنچھی
وحشت بڑھنے پر اتنا بے چین ہوا ہے
ورنہ تو معصوم رہا ہے یاد کا پنچھی
برسوں بعد اماوس میں برسات ہوئی ہے
اس کارن ہی جھوم رہا ہے یاد کا پنچھی
تنہا برسوں زرد اداسی کی زد میں تھا
اتنا تو مظلوم رہا ہے یاد کا پنچھی
جِن پیڑوں پر ہم نے مل کر نام لکھا تھا
ان پیڑوں کو چوم رہا ہے یاد کا پنچھی
شوزب حکیم
No comments:
Post a Comment