Wednesday, 23 November 2022

دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں

 دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں

کس کس کو کھو چکا ہوں اور خود کو کھو رہا ہوں 

کھڑکی کھلی ہوئی ہے، بارش تُلی ہوئی ہے

آنسو اُمڈ رہے ہیں دامن بھگو رہا ہوں 

وہ جس کے ٹُوٹنے سے نیندیں اُڑی ہوئی ہیں

وہ خواب جوڑنے کو، بن بن کے سو رہا ہوں 

ہاں فصل کاٹنے سے کوئی غرض نہیں ہے

آیا کرے قیامت،۔ میں بیج بو رہا ہوں 

ہر صبح ایک سی ہے، ہر شام ایک سی ہے

کیا خاک زندگی ہے، اک بوجھ ڈھو رہا ہوں 


خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment