دل یہ کہتا ہے کہ اب سر ہی کو پھوڑا جائے
یا سکوتِ لب خاموش کو توڑا جائے
کر دئیے جائیں مِرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے
یا مجھے ریشۂ امید سے جوڑا جائے
اب مجھے رات کی تنہائی سے خوف آتا ہے
رات آئے تو نہ تنہا مجھے چھوڑا جائے
ڈستے رہتے ہیں مجھے زخم پرانے شب بھر
اب مِرا ر شتہ نئے درد سے جوڑا جائے
اک تعلق کہ جسے اپنا نہیں کہہ سکتا
توڑ سکتا ہوں اسے اور نہ توڑا جائے
وسیم عباس
No comments:
Post a Comment