Tuesday 29 November 2022

طناب خیمۂ جاں چشم خواب کھینچتے ہیں

 طنابِ خیمۂ جاں چشمِ خواب کھینچتے ہیں

جو جا چکے ہیں مِرے دستیاب کھینچتے ہیں

مِرے وجود کو جونکیں لگا تسلی کی

یہ وسوسے تو رگوں سے شباب کھینچتے ہیں

انہیں اداسی کی جادو گری کا علم نہیں

یہ کم نظر ہیں تِرا سدِ باب کھینچتے ہیں

مِلو کہ لاشۂ الفت پہ کُھل کے رقص کریں

مِلو کہ مِل کے خطِ اجتناب کھینچتے ہیں

جو میں نے کہنا تھا پہلے سے کہہ رہا ہے کوئی

یہ کس کے ہونٹ مِرا انتخاب کھینچتے ہیں

خدا بھی اپنے بنے دائرے میں رہتا ہے

نجانے لوگ کسے بے حساب کھینچتے ہیں

کھنچے تو آتے ہیں آوازِ پا پہ باہر تک

پھر اپنا آپ کہاں بازیاب کھینچتے ہیں

نظارگی کا رِدھم توڑنا پڑے گا یہیں

پسِ نظارہ مجھے کچھ حِجاب کھینچتے ہیں


عقیل عباس چغتائی

No comments:

Post a Comment