Tuesday, 29 November 2022

ہو تو سکتا ہے کسی دیو کے جیسے میں بھی

تذبذب


ہو تو سکتا ہے کسی دیو کے جیسے میں بھی

لے اڑوں تجھ کو کہیں دور کی دنیاؤں میں

دل کی دیواروں میں لو تیری مقید کر کے

تشنہ آشاؤں کے قلعے کو منور کر لوں

خواب دیرینہ کی تعبیر بنا کر تجھ کو

اپنی آنکھوں کے کواڑوں میں مقفل کر لوں

ساری دنیا کی نگاہوں سے چھپا کر تجھ کو

لے اڑوں رینگتے بل کھاتے ہوئے رستوں پر

جو پہاڑوں کے بدن کاٹ کے اوپر کی طرف

سبز کائی سے اٹے محلوں پہ جا رکتے ہیں

خود غرض ہو کے تجھے قید میں رکھوں ایسے

ذی نفس کوئی نہ ہو چار چفیرے تیرے

اپنی تنہائی کی وحشت کو مٹانے کے لیے

ڈھونڈ پائے نہ کسی کو تو سوائے میرے

صرف اک میں ہوں اور اک تو ہو رفاقت کے لیے

ماسوا میرے نہ ہو کوئی محبت کے لیے

لیکن اے پھول صفت دیکھ کے صورت تیری

سوچتا ہوں کہ اگر باغ جہاں سے تجھ کو

توڑ بھی لوں گا تو تو کیسے جیے گی آخر

رنگ ہا رنگ مہکتے ہوئے پھولوں سے پرے

دور افتادہ پر اسرار خرابے میں قیام

درد کے پھیلتے سائے میں کہاں ممکن ہے

تجھ تر و تازہ کا خوش رہنا چٹکنا کھلنا

میری ویران سرائے میں کہاں ممکن ہے


اویس ملک

No comments:

Post a Comment