Tuesday 29 November 2022

ناہوت مفلسی کا تماشا ہے اور بے بسی کی نمائش

 ناہوت


مفلسی کا تماشا ہے

اور بے بسی کی نمائش کے ہر اک ٹکٹ پر لکھا ہے

کہ اس زندگی میں کوئی اک جھمیلہ نہیں

سینکڑوں ہیں

یہاں کسمساتے ہوئے جسم 

فاقہ کشی کے مظالم کی ہر داستاں

خامشی کے صحائف پہ

اشکوں کی گاڑھی سیاہی سے لکھتے رہے ہیں 

یہاں دلکش و دلنشیں سب مناظر کی 

ہر چاشنی پیٹ پر منحصر ہے

کسی فاقہ کش سے فقط اتنا پوچھو  کہ 

دنیا بھیانک ہے کتنی

یقیناً وہ رونے لگے گا

وہ آنسو اناجوں کی تقسیم پر 

طنزیہ قہقہے درج کرتے رہیں گے

وہ محرومیوں سے اٹی آنکھیں 

خوابوں میں روٹی کے شبدوں کو روتی رہیں 

دکھ تو اس بات کا ہے کہ 

نادار لوگوں کا پُرسان کوئی نہیں 

کتنے خوش بخت لوگوں میں شامل ہیں وہ لوگ 

جو رات سوتے میں یہ سوچتے ہی نہیں کہ

صبح اٹھ کے روٹی کا ٹکڑا شکم میں اتاریں گے

یا بھوکے مر جائیں گے

اے خدا! دیکھ جن کا بس اک تُو سہارا ہے

بے آسرا ان سا کوئی نہیں 

زندگی ایک تھیٹر ہے 

جس میں غریبی کے مارے ہوئے مسخرے

بے حسی کے نوالوں پہ پلتے ہوئے لوگوں کے سامنے 

روز ہی کوئی کرتب دکھاتے ہوئے مر رہے ہیں 

مگر مرنے والے کی روندی ہوئی لاش پر 

تازہ اخبار کی سرخیاں  داد دے کر 

تماشائیوں کے فرائض ادا کر رہی ہیں 

اگر زندگی کوئی آسانی پیدا کرے بھی 

تو لگتا ہے جیسے کوئی خواب ہے


اویس علی

No comments:

Post a Comment