Monday, 28 November 2022

نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے

 نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے

میں وہ پتھر ہوں کہ روؤں تو نہ رویا جائے

اجنبی ہے تِرے خوشرنگ بدن کی خوشبو

اک ذرا لمس وفا تجھ میں سمویا جائے

شب کے صحرا نے عجب پیاس لکھی ہے مجھ میں

مجھ کو خورشید کے شعلوں میں ڈبویا جائے

میں نے تنہائی میں جل کر بھی یہی چاہا ہے

خوشبوؤں سے تِرے آنچل کو بھگویا جائے

زندگی کو ہے ضرورت نئے پیراہن کی

اپنے ہی خون میں اپنے کو ڈبویا جائے


جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment