نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے
میں وہ پتھر ہوں کہ روؤں تو نہ رویا جائے
اجنبی ہے تِرے خوشرنگ بدن کی خوشبو
اک ذرا لمس وفا تجھ میں سمویا جائے
شب کے صحرا نے عجب پیاس لکھی ہے مجھ میں
مجھ کو خورشید کے شعلوں میں ڈبویا جائے
میں نے تنہائی میں جل کر بھی یہی چاہا ہے
خوشبوؤں سے تِرے آنچل کو بھگویا جائے
زندگی کو ہے ضرورت نئے پیراہن کی
اپنے ہی خون میں اپنے کو ڈبویا جائے
جاذب قریشی
No comments:
Post a Comment