ذرا سی دیر لگتی ہے
کسی کو آزمانے میں
زرا سی دیر لگتی ہے
جنہیں ہم ہیں سمجھتے کہ
ہیں سنگ یہ زندگی بھر کے
انہیں بس چھوٹ جانے میں
ذرا سی دیر لگتی ہے
یہ جیون ہے سفر ایسا
کہ ہر اک گام پر منزل
کبھی ایسا ہے پھر ہوتا
نہیں ہوتا کوئی رستہ
کہیں پر بس بھٹکنے میں
ذرا سی دیر لگتی ہے
مسافر ہوں جو رستہ
ڈھونڈتے انجان منزل کا
تو ہوتا ہے کبھی ایسا
کہ منزل مل نہیں پاتی
کبھی پھر یوں بھی ہوتا ہے
سفر ہوتا ہے لاحاصل
کبھی منزل کو پانے میں
ذرا سی دیر لگتی ہے
سبھی رشتے ہیں دھوکہ سا
ہوا کا سرد جھونکا سا
کہ موسم کو بدلنے میں
ذرا سی دیر لگتی ہے
کسی کو چاہتے ہوں جو
نہ اس کے بن جو رہ پائیں
ہے یہ اک بات چھوٹی سی
مگر اس بات کو کہنا
ہے مشکل سا بہت شاید
کسی کو یہ بتانا ہے
بہت ہی کام مشکل یہ
مگر ہے بات بلکل سچ
ہے بلکل یہ حقیقت کہ
تعلق ٹوٹ جانے میں
ذرا سی دیر لگتی ہے
تسنیم مرزا
No comments:
Post a Comment