Sunday 27 November 2022

کسی کو آزمانے میں زرا سی دیر لگتی ہے

ذرا سی دیر لگتی ہے


کسی کو آزمانے میں

زرا سی دیر لگتی ہے

جنہیں ہم ہیں سمجھتے کہ

ہیں سنگ یہ زندگی بھر کے

انہیں بس چھوٹ جانے میں

ذرا سی دیر لگتی ہے

یہ جیون ہے سفر ایسا

کہ ہر اک گام پر منزل

کبھی ایسا ہے پھر ہوتا

نہیں ہوتا کوئی رستہ

کہیں پر بس بھٹکنے میں

ذرا سی دیر لگتی ہے

مسافر ہوں جو رستہ

ڈھونڈتے انجان منزل کا

تو ہوتا ہے کبھی ایسا 

کہ منزل مل نہیں پاتی

کبھی پھر یوں بھی ہوتا ہے

سفر ہوتا ہے لاحاصل

کبھی منزل کو پانے میں

ذرا سی دیر لگتی ہے

سبھی رشتے ہیں دھوکہ سا

ہوا کا سرد جھونکا سا

کہ موسم کو بدلنے میں

ذرا سی دیر لگتی ہے

کسی کو چاہتے ہوں جو

نہ اس کے بن جو رہ پائیں

ہے یہ اک بات چھوٹی سی

مگر اس بات کو کہنا

ہے مشکل سا بہت شاید

کسی کو یہ بتانا ہے

بہت ہی کام مشکل یہ

مگر ہے بات بلکل سچ

ہے بلکل یہ حقیقت کہ

تعلق ٹوٹ جانے میں

ذرا سی دیر لگتی ہے


تسنیم مرزا

No comments:

Post a Comment